پچھلی کئی دہائیوں سے ایک شورش زدہ اورجنگ میں مبتلا ملک افغانستان میں 28جون2008ءمیں کابل میں کھدائی کے دوران دوگڑھوں سے 16 لا شوں کے ڈھانچے برآمد ہوئے تھے،اس میں کوئی تعجب کی بات اس لئے نہیں کہ یہاں آئے دن اندھادھند اپنے مخالفین کوقتل کردیناایک معمول کی بات ہے۔ کشمکش اقتدار میں خون کے دریا بہانا،کشتوں کے پشتے لگاناایک جنگی حکمت عملی تصورکی جاتی ہے ہیں۔پہلے خون آشا م روسی سرخ ریچھ اوربعدازاں فرعونی اورنمرودی طاغوت اپنی بے پناہ قوت،مظا لم کامظاہرہ کرنے کے بعداب اپنے زخموں کوچاٹ رہاہے لیکن اب بھی مکروہ سازشوں میں مصروف ہے۔اس دوران مجاہدین غیرملکی طاقتوں،ان کے ایجنٹوں اورپھرایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑتے رہے ہیں۔ایک ایسے ملک میں کسی اجتماعی قبرنہیں بلکہ دوگڑھوں سے با قاعدہ تہجیزوتکفین کے بغیربس یونہی اٹھاکرپھینکی گئی لا شوں کابر آمدہوناکوئی حیرت انگیز بات نہیں تھی….حیرت بلکہ عبرت کا مقام یہ تھاکہ ان میں ایک ڈھانچے کوسردارداؤدکے ڈھانچے کے طورپرشناخت کیا گیایعنی شاہ ظاہرشاہ کاتختہ الٹنے والا!
افغانستان کوروس کی چراگاہ بنانے کی بنیاد رکھنے والے،پاکستان کوآنکھیں دکھانے والے،پختونستان کے حامیوں کوافغانستان میں پناہ دینے اوروہاں سے پاکستان کے ا ندردہشتگردی کی کاروائیوں کیلئےبیس کیمپ فراہم کرنے والے سردارداؤد کابے کفن ڈھانچہ،جسے اس کے لباس اورجوتوں سے شناخت کیاگیا….یہ وقت کس کی رعونت پرخاک ڈال گیا…….سردارداؤدہی نہیں تمام آمراپنی زندگیوں میں ا پنے مخالفوں کوبندوق کی نوک اوران کی تنقیدوتجاویزاورمشوروں کوجوتے کی نوک پررکھتے ہیں لیکن جب تاریخ کاپہیہ گھومتاہے توسردارداؤدکی شناخت اس چہرے سے نہیں ہوتی جس کی ہیبت سے ساراملک لرزتاتھابلکہ اس کے خون آلود کپڑوں اوردھول میں اٹے جوتوں سے ہوتی ہے۔اپنے کالمزاورآرٹیکلزمیں کئی مرتبہ استعمار کے افغان ایجنٹوں کوان کی زہر افشانیوں پریاددلاتارہاہوں کہ صدیوں پہلے ان کے آباؤاجداکوروندتے ہوئے ہندوستان پر قبضہ کرنے اوردلی میں بیٹھ کرافغانہ پرحکومت کرنے والے آل تیمور بالآخراس نتیجے پرپہنچے تھے کہ بہادرشاہ ظفربھی بلک اٹھاتھا!
کتناہے بدنصیب ظفرد فن کیلئے
دوگززمیں بھی نہ ملی کوئے یارمیں
لیکن بہادرشاہ ظفراتناخوش نصیب ضرورتھاکہ دیارغیرمیں ہی سہی،اسے دفن کیلئے دوگززمین مل گئی تھی اوراس کی قبر کی شناخت بھی قائم ہوگئی تھی اورآج بھی رنگون کی سیا حت کوجا نے والے چاہیں توعقیدت کے پھول نچھاورکریں یا شہنشاہیت پرتبریٰ بھیجیں،دعاکیلئے ہاتھ اٹھائیں،چاہیں تودومنٹ کی خاموشی اختیار کرنے کی رسم نبھائیں،چاہیں توعبرت پکڑیں یااپنے آپ کواس سے بالاترسمجھیں۔ویسے تکاثرکاشکاراورعاجلہ کاطلب گار انسان عبرت کم ہی پکڑتاہے۔اگرانسان عبرت پکڑنے کاعادی ہوتاتوبہادرشاہ ظفرکے مدفن رنگون کے حاکم مسلسل آمریت اورفسطائیت کے راستے پرنہ چل رہے ہوتے۔ہوس اقتدار عروج پرنہ ہوتا اور برمامیں انسانی حقوق کی پامالی نہ ہوتی۔
اگرانسان عبرت پکڑتاتوبہادرشاہ ظفرکی جلاوطنی اوردیارغیرمیں موت،شہزادوں کے قتل،شہزادیوں اورشہزادوں کی ہندوستان کی وسعتوں میں ہی نہیں بلکہ پایہ تخت شاہ جہاں آبادمیں دست سوال درازکرکے اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی عبرت ناک روایات سے آگاہ،مسلمان قوم میں دین سے دوری،حب دنیا،آخرت سے بے نیازی،مطلق العنانیت کی خواہش،ذاتی اقتدارکی طلب ،غیروں پرکرم اوراپنوں پرستم کی رذالت کاشائبہ تک بھی نہ پایاجاتا۔لیکن ہواکیا؟غلام محمدسے سکندر مرزا تک،ایوب خان سے یحییٰ خان تک، ذوالفقارعلی بھٹو سے ضیاء الحق تک، نواز شریف سے لیکربے نظیر بھٹو تک،پرویز مشرف سے آصف زرداری تک، نواز شریف سے لیکرعمران خان تک اورایک مرتبہ پھرسیاستدانوں کے اجماع کے منتخب کردہ آل شریف،سب ہی اپنے اقتدارکودوام دینے،اپنی مطلق العنانیت کو آئین وقانون بنانے،اپنے زیردستوں پرمظالم ڈھانے اوراپنے سے زبردستوں کوسلام کرنے،غیروں پرکرم کرنے اوران کی خوشنودی اوران کی سرپرستی کے نتیجے میں اپنے اقتدار کے دوام کی خواہش کوپورا کرنے کیلئے اپنوں پرستم کرنے میں مصروف رہے لیکن انہیں نہ توبہادرشاہ ظفر کی غر یب الدیاری سے خوف آیانہ شاہ فاروق اورشہنشاہ ایران کی دربدری سے۔نہ ان کادھیان اس طرف گیاکہ پاکستان کے پہلے آمرغلام محمد کومسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونابھی نصیب نہیں ہواتھا اورنہ ہی یہ بات انہیں کچھ سوچنے پرآمادہ کرسکی کہ سردارداؤدکونہ غسل نصیب ہوااورنہ ہی کفن،نہ نمازجنازہ ہوئی نہ با ضابطہ تدفین۔انہیں ایسے گھسیٹ کرگڑھے میں ڈال دیا گیا جیسے جانوروں کی لاش ٹھکانے لگائی جاتی ہے۔ایکڑوں پرپھیلے شاہی محل کے مقیم کواپنی الگ قبربھی نہ ملی ۔فاعتبروایااولی الابصار
ہم بات کررہے تھے سردارداؤدکے ڈھانچے کی دریافت کی…….یہ ستّرکی دہائی تھی جب سردارداؤدنے ظاہرشاہ کاتختہ الٹاتھا اورپاکستان کے خلاف سازشوں کا نیاسلسلہ شروع کیاتھا۔ذوالفقاربھٹونے سردارداؤدکواسلام آباد بلایا،انہیں سمجھایااوران کی مددکابندوبست بھی کیا۔آج افغانستان کے حالات کاذمہ دار جنرل ضیاء الحق کوٹھہرانے اوربین الاقوامی سا زشوں کاساراملبہ ایک فردپرڈالنے والے اورافغانستان میں جاری شورش کے پاکستان پر پڑنے والے سارے اثرات کا ذمہ دارمذ ہبی جماعتوں کوقرار دینے والے نہائت چالاکی سے ا فغانستان کے معاملات کے اہم ترین کردارکاتذکرہ گول کر جاتے ہیں۔نئی نسل توخیراس سارے معاملے سے ناواقف وبے خبرہے لیکن کئی قلمکارجب جہادافغانستان کے حوالے سے ضیاءالحق اورجماعت اسلامی کوجی بھر کرکوس رہے ہوتے ہیں تب وہ اس حقیقت کوچھپارہے ہوتے ہیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے سردارداؤد کی سازشوں کاکیابندوبست کیا تھا ۔
میں یہ کئی بارباوثوق ذرائع کے حوالے سے اپنے کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے انجینئر گلبدین حکمت یار کو افغانستان میں جوابی انتشار پیدا کرنے کیلئے وسائل فراہم کئے۔اگلے مرحلے پر برہان الدین ربانی بھی اس منصوبے میں شامل کر لئے گئے۔انجینئرگلبدین حکمت یارسید مودوؒدی کی تحریروں کے اسیر اورمولانا کی انقلابی فکرکے گھائل تھے لہندا پاکستان میں ان کی ہمدردیاں جماعت اسلامی کے ساتھ تھیں۔ضیاءالحق نے افغانستان میں روس کے با قاعدہ داخلے کے بعد انہی راستوں اور رابطوں کو استعمال کیا تھاجس کی تعمیر پاکستان کے ذہین ترین سیاستدان ذوالفقار علی بھٹونے کی تھی۔میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اگر افغانستان میں روس کے با قاعدہ داخلے کے وقت ذوالفقارعلی بھٹو پا کستان کے وزیر اعظم ہوتے تو وہ انجینئر گلبدین حکمت یار کو ضیاء الحق سے بہت بہتراندازسے استعمال کرتے۔ذوالفقارعلی بھٹونے ہندوستان سے90ہزارقیدیوں کی واپسی کیلئے شملہ مذا کرات کے دوران بھارتی سیاست کا جو رخ دیکھا تھا اس کے نتیجے میں انہوں نے صرف ایٹمی پلانٹ ہی نہیں لگایا، صرف ڈاکٹر عبدالقدیر کی سرپرستی ہی نہیں کی تھی،انجینئر گلبدین حکمت یار اور کشمیری قیادت کو مزاحمت کیلئے تیار بھی کیا تھا۔ جاگیردارانہ پندارکے حامل انا پرست ذوالفقارعلی بھٹونے شملہ میں اندراگاندھی کے ہا تھوں اپنی انا کو لگائے گئے کچوکوں کا بدلہ لینے کیلئے ہندوستان کے داخلی انتشارسے فائدہ اٹھانے کاراستہ اختیار کرتے ہوئے شمال مغرب میں نئے دوست تلاش کئے تھے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی ذہانت،اس کی عوامی مقبولیت اوراس کے شخصی سحرسے خوفزدہ لوگوں اوربین الاقوامی سازشیوں نے ذوالفقارعلی بھٹوکوٹھکانے لگادیالیکن بد قسمتی سے اس کی بیٹی بے نظیربھٹوکوپاکستان میں دوبارہ واپسی اوراقتدارکے حصول کیلئے انہی سامراجی قوتوں کے توسط سے این آراوکی بساط بچھانی پڑی لیکن قصر اقتدارسے دوگام دورہی بے نظیر بھٹوکے خون سے پیپلزپارٹی کوسینچ دیاگیااوراقتدارکاہماان کے شوہرنامدارآصف زرداری کے سرپربٹھاکرایوان صدرمیں اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے نامزدکردیاگیااورنائن الیون کے بعدخودکوکمانڈوکہنے والا،اس خطے کی صورتحال بدلنے میں سب سے زیادہ تعاون کرنے والے ڈکٹیٹرمشرف کاپتہ صاف کردیاگیاکہ اب اس سے زیادہ تابعدارمیسرآگیاتھاجس کوافغانستان میں پاکستان کی مفاد کی جنگ لڑنے والوں کے خلاف صف آرا ٔکردیاگیاحالانکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے پختونستان کی سازش کرنے والوں کوکابل میں بھی غیرمحفوظ کردیاتھالیکن ان کے بے بصیرت وارثوں نے قوم کوگمراہ اوراپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے حسین حقانی جیسے ننگ ملت کوامریکا میں سفیرمقررکرکے ان کے ایجنٹوں اوربلیک واٹرکے ہزاروں دہشتگردوں کو پاکستان کے باقاعدہ ویزے جاری کرکے ارضِ پاک کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچارکردیاجس کی سزاہم آج تک بھگت رہے ہیں اوریہی پاکستانی عدالتوں کومطلوب ومفرورمجرم حسین حقانی آج کل مودی جیسے فاشسٹ کے ایجنڈے کوآگے بڑھانے کیلئے شب وروزصرف کرکے اپنی سیاہ کاریوں سے آخرت کوتباہ وبربادکررہاہے۔
کوئی نہیں سوچ رہاکہ نام نہادبڑی طاقتوں کاطریقہ واردات کیاہوتاہے۔روس نے ظاہرشاہ کے خلاف سردارداؤد کی حمائت اپنے مقاصدکیلئے کی تھی لیکن جب سردارداؤداپنے حصے کاکام کرچکااورروس کوایک زیادہ روس نوازحکومت کی ضرورت محسوس ہوئی توسردارداؤدکوقتل کرکے لاوارثوں کی طرح زمین میں گاڑھ دیاگیا .. ….جب روسی فوجیں واپس چلی گئیں اورضیاءالحق کی ضرورت نہ رہی توان کے طیارے کوفضاہی میں نذرآتش کردیا گیا۔حددرجہ سفاک امریکیوں نے ضیاء الحق کومحفوظ ہونے کاتاثردینے کیلئے اپنے سفیراورایک اہم فوجی آفیسرکو”چارے”کے طورپراستعمال کیا۔
انہی امریکیوں نے عراق میں صدام کوایران سے جنگ کیلئے مدددی۔کویت پرقبضہ کیلئے حوصلہ دیااورپھرانہیں کردوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے اور تباہی پھیلانے کے جرم میں نہ صرف اسے ٹانگ دیاگیابلکہ عراق کے لاکھوں بے گناہ افرادکوبھی تہہ تیغ کردیاگیااوراب تک عراق کے وسائل پراپنے باپ کا مال سمجھ کرہاتھ صاف کررہے ہیں۔جب پرویزمشرف اورآصف زرداری سے اپنے حصے کاکام لے چکے توپھرنئے تابع داروں کومیدان میں اتاراگیالیکن”ضربِ عضب”کی بھرپور ضرب اور”ردالفساد” نے استعماری قوتوں کاتمام پلان بگاڑکررکھ دیااورہماری افواج نے بے مثال قربانیاں دیکراس معجزاتی ریاست کودوبارہ امن کی طرف گامزن کرتے ہوئے برملااعلان بھی کردیاکہ اگرکسی نے بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھاتوہم کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں اوریقیناًاس پیغام کوملک کے دشمنوں نے اس وقت بخوبی سمجھاجب مودی نے اپنے اتحادیوں کی شہہ پررات کے اندھیرے میں پاکستان پرسٹرائیک کیلئے دوجدیدترین جہازوں کوبھیجاجن کوپاکستانی ائیرفورس کے شیروں نے نہ صرف خاک چٹاتے ہوئے اندھیرے غاروں میں غرق کردیابلکہ پائلٹ کوبھی اپنی حدودمیں گرفتارکرلیا۔ اس وقت کے آئی ایس پی آرنے میڈیاپرباقاعدہ جوابی کاروائی کاانتہائی چنے ہوئے الفاظ میں جواب دیتے ہوئے اپنی مرضی کاوقت اورجگہ کاتعین کاسرپرائزدیتے ہوئے اس قدر مؤثرجواب دیاکہ بھارت کے ساتھ اس کے اتحادیوں کی بھی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔شنیدیہ ہے کہ قصرسفیدکے فرعون نےبالعموم اپنی اوربالخصوص ہندو برہمن کی عزت کی بحالی کیلئے انڈیاکے ڈمی میزائل حملے کے پلان سے جب پاکستان کوآگاہ کیاتوپاکستان نے پہلے سے بھی زیادہ سخت جواب دینے کا پیغام پہنچادیا جس کے بعدمودی جنتااوراس کے اتحادیوں کوہمت نہ ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ پاک چین کوریڈورکوناکام بنانے کیلئے ایک مرتبہ پھربھارت،امریکااورافغانستان میں پاکستان کے خلاف نئے خطرناک پلان پرکام شروع ہوچکاہے ۔ سابق امریکی صدرٹرمپ نے انتہائی مکاری سے کشمیرپربراہ راست ثالثی کی پیشکش کی آڑمیں ہمارے بصیرت سے محروم حکمرانوں کی ناک کے نیچے انڈیاکواقوام متحدہ کی قراردادوں کے پرزےَ اڑاتے ہوئے کشمیرکوبھارت میں شامل کرنے کااولان کردیااورہمارے حکمران امریکی دورے سے واپسی کو”کرکٹ کاورلڈکپ”جیتنے سے تشبیہ دینے کاڈرامہ رچاتے رہے۔انڈیاکے اس طالمانہ اورغیرقانونی اقدام پرعمران خان نے ہرجمعہ کوکشمیرکے ساتھ یکجہتی کیلئے علامتی احتجاج کااعلان کیالیکن پہلے ہی ہفتے اپنے ایوان اقتدارکی سیڑھیوں پرچندمنٹوں کے فوٹوسیشن کے بعدواپس چلے گئے اورآج تک ان کودوبارہ اس کی توفیق نہ ہوسکی لیکن مکافاتِ عمل نے اسی ایوان اقتدارسے جس طرح رخصت کیا،وہ بھی تاریخ کایک حصہ ہے جس کی واپسی کیلئے جس امریکاکوموردِ الزام ٹھہراتے رہے،اب انہی کی غلامی اختیار کرنے کیلئے بھرپورجتن کررہے ہیں۔
بھارت اب بھی کشمیرمیں جاری ریاستی شدیدترین وحشت وبربریت سے اقوام عالم کی توجہ ہٹانے کیلئے آئندہ چندماہ میں خطرناک صورتحال پیدا کرنے جارہاہے جس کیلئے وہ مقبوضہ کشمیرمیں عالمی کانفرنس کے انعقادکے ذریعے ایک توکشمیر کوغیرمتنازعہ ثابت کرنے کیلئےسرمایہ کاری کی دعوت دے رہاہے اوردوسری طرف پاکستان کے موجودہ مخدوش سیاسی حالات اورابترمعاشی مشکلات کی آڑمیں مسئلہ کشمیرکے ساتھ ساتھ پاک چین کوریڈورکوسبوتاژکرنے کیلئے نئے سرے سے کسی بھی نئی غلطی کاپلان بنارہاہے،یقیناًسیکورٹی کےذمہ داراس معاملے سے نمٹنے کیلئے نہ صرف پوری طرح باخبربلکہ منہ توڑجواب کیلئے بھی تیارہوں گے۔ایک مرتبہ پھر امریکانے اپنے مہیاکردہ ایف16طیاروں کے پرزہ جات ی خریداری کیلئے پاکستان کو450ملین ڈالردینے کااعلان کیاہے جبکہ امریکی رکن کانگریس شیلا جیکسن کے مطابق سیلاب زدگان کیلئے مزید20ملین ڈالردینے کی بھی تصدیق کی ہے۔میری تشویش یہ ہے کہ امریکاکی اس مہربانی کے پیچھے اس کے کون سے مفادات ہیں جس کیلئے ایسے اعلانات سامنے آرہے ہیں۔لیکن اب وقت آگیاہے کہ ہم ملک کے اندرونی سیاسی معاملات کوخوش اسلوبی سے طے کرنے اوراوراقوام عالم میں ان حالات سے نمٹنے کیلئے اپنی خارجہ پالیسی کی طرف فوری توجہ دیں…….. لیکن میں یہ بھی سوچ رہاہوں جب امریکااپناہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگیاتووہ اپنے موجودہ ایجنٹوں کے ساتھ کیاسلوک کرے گا؟شاہ ایران جیسا، ضیاءالحق جیسا،سردارداؤدجیسا یا صدام جیسا…………؟کیاامریکامودی کیلئے اپنی برسوں پرانی سرشت میں کوئی تبدیلی کرے گا……….یقیناًامریکاتواپنی خونہیں بدلے گا۔
شماراس کی سخاوت کاکیاکریں کہ جوشخص
چراغ بانٹتاپھرتاہے چھین کرآنکھیں