پاکستان کے لبرلزاس بات پربضدہیں کہ پاکستان میں جنس کچھ زیادہ ہی حساس موضوع ہے اورپاکستانیوں کی رگِ جنس کی حساسیت کااندازہ یہیں سے لگا لیجیے کہ اگر عورت نے ذراساماڈرن لباس پہناہواہوتووہ فوراپھڑک اُٹھتی ہے جبکہ لندن کے بازاروں میں میمیں نیم برہنہ بھی پھرتی رہیں توکوئی دربدر پھرنے والے میرخوارکی طرح پوچھتابھی نہیں۔کسی کویہ جرات نہیں کہ راستہ روک کراسے خداکےکاخود دلاکراسے شرم دلاناشروع کردے۔لبرلز کویقین ہے کہ پاکستان اس دن مغرب کے ہم پلہ ہوجائے گا،جس دن یہاں نیم برہنہ عورتیں آزادی کے ساتھ گھوم پھرسکیں گی اورانہیں سوائے مچھروں کے کسی کاخوف نہ ہوگا۔خیریہ ان کے ذہنِ رساکی کارستانی ہے،اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بہت سے مضمرات اوراثرات ہیں جوبذات خودمغربی معاشروں میں دیکھے اورمحسوس کیے جاسکتے ہیں لیکن مجھے کبھی کبھی اس بات کاشدت سے احساس ہوتاہے کہ لبرل یاتوبہت سطحی سوچ رکھتے ہیں یاپھرسوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسے ٹیسٹ کیس بناتے ہیں۔سطحی اس لیے ہے کہ درج بالاموازنے میں انتہائی بےدردی کے ساتھ کسی مشترک بنیادکو نظراندازکیاجاتاہے۔کسی بھی مشترک بنیادکے بغیردوچیزوں کاموازنہ انتہائی سطحیت کاحامل ہوگایاسوچاسمجھامنصوبہ،مثلا:دو مختلف پس منظررکھنے والے طالب علموں سے ایک جیسے نتائج کی توقع رکھناعبث ہے ۔ایک طرف آپ چونیاں کے سرکاری سکول اوردوسری طرف شہرکے اعلی ترین انگریزی میڈیم سکول کے دو طالب علموں کوآمنے سامنے لابٹھائیں اورپھر انگریزی زبان میں کسی ٹیسٹ کی بنیادپرانہیں پرکھیں تویہ سراسرناانصافی ہوگی۔استثنااپنی جگہ،لیکن یہاں موازنہ کسی صورت بھی مناسب نہیں۔
اسی طرح دومعاشروں کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے،ہمیں ضرورکسی مشترک بنیادکومدنظررکھناچاہیے،مثلااگرآپ برطانیہ اور پاکستانی معاشرے میں انگریزی بولنے کے معیارکاموازنہ کریں گے تویہ انتہائی شرمناک بات ہوگی،یاآپ فرانس میں رہنے والوں اورافریقہ میں رہنے والوں کی رنگت کاموازنہ کرنے بیٹھ جائیں گے تو آپ کوسوائے بیوقوف کے کچھ اورنہیں کہاجاسکتایاآپ پاکستان کواس لیے شرمناک قراردیں کہ یہاں سورکاگوشت سرعام نہیں ملتاتوآپ کی عقل کاماتم ہی کیاجا سکتاہے۔ہرمعاشرے کااپنا تانابانااوربنیادی اجزاہوتے ہیں،گویادومختلف معاشرے جومختلف عقیدوں، معاشرتی اقدار،تصورات اورجذبات کے ساتھ سانس لیتے ہوں،ان پربیک قلم کوئی ایک حکم لگاناناانصافی ہوگی۔
برطانوی معاشرہ شخصی آزادی کے سیکولرتصورات پریقین رکھتاہے اورپچھلے دوسوسالوں سے ان تصورات کے تحت مستقل زندگی گزاررہاہے۔انہیں بچپن سے لبرل آزادیوں کے تصورات عملی طورپرپڑھائے اورسکھائے جاتے ہیں۔پھروہ اپنے،گھر، سکول،کھیل کے میدانوں،تفریح گاہوں میں ان تصورات کوعملی طورپر وقوع پذیرہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔اس لیے ان کیلئےیہ کوئی مسئلہ نہیں کہ ایک عورت کھلاگریبان یانیم برہنہ لباس پہنے،بازاروں اورگلیوں میں سے گزرے۔ پھرجنس ان کیلئےبچپن ہی سے ایک عام ا ورسستی سی شے بن جاتی ہے،اس لیے ان میں نظری لذت انگیزی کاوہ پہلو،جوکسی شے کے اسرارسے پیداہوتا ہے ،وہ بھی مفقودہوتاہے،اگرچہ یہاں بھی اختلاف موجودہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی معاشرہ کے بنیادی اجزامیں اسلامی عقیدہ ایک اہم جزوہے۔ان کی اکثریت، جوابھی مغربی تہذیب یاسیکولرتصورات سے متاثرنہیں ہوئی،کے تصورات یاپسندناپسنداسلام سے جڑے ہوئے ہیں۔انہیں اپنے گھرسے مذہبی روایات اورشرم وحیاکاایک خاص تصوربچپن سے ملتاہے،جوان کی معاشرتی اقدارکاجزوہے۔انہیں بچپن سے بتایاجاتاہے کہ سترپوشی کے ایک خاص معنی ہیں،اس لیے انہیں جب کوئی عورت نیم برہنہ لباس میں دکھائی دیتی ہے توان کاردِّعمل کسی انگریزکی نسبت بالکل مختلف ہوسکتاہے۔اوّل انہیں اس چیزکی عادت نہیں،دوم جنس ان کیلئےکوئی عام اورسستی سی شے نہیں اورسوم نظری لذت انگیزی کاپہلولازماًاپنی جگہ موجود ہے توان دونوں معاشروں کا موازنہ یاتوسطحی ہوگایاسوچاسمجھامنصوبہ۔ سطحیت کااندازہ تو آپ نے کرلیاہوگالیکن سوچاسمجھامنصوبہ کیسے کہاجاسکتاہےتو اس کیلئےپہلے چندگزارشات سمجھ لیجیے۔
مسلم معاشروں میں عقیدے،تربیت اورمعاشرتی اقدارسے جنم لینے والی سوچ کا،جب نظام اورقانون کی سطح پردی جانے والی لبرل آزادی سے سامناہوتا ہے تو اس کانتیجہ لازماً انتشارکی صورت میں نکلتاہے۔مسلم معاشروں میں،کچھ اوپرنیچے کے فرق کے ساتھ، پچھلےقریباًدوسوسالوں سے مغربی سیکولر عقیدے سے نکلنے والے قوانین اورتصورات رائج ہیں۔جنہیں تعلیم اورمیڈیاکے ذریعے عام کیاگیاہے۔حکومتی سپورٹ کے باوجود،اکثریت ان تصورات کوناپسندکرتی ہے لیکن چند فیصدلوگ ان سے متاثربھی ہوئے ہیں جنہیں میڈیامیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے، اس طرح وہ لوگ مزیدلوگوں کو متاثرکرنے کی کوششوں کاحصہ بن جاتے ہیں۔ یہ کسی معاشرے کوبدلنے کوایک ارتقائی عمل گردانتے ہیں۔امریکی تھنک ٹینک رینڈاے کارپوریشن کی رپورٹ سول ڈیموکریٹک اسلام میں اسی ارتقائی عمل کوتیزکرنے کیلئےاقدامات تجویزکیے گئے ہیں۔
اس اقلیتی لبرل طبقے کی پروجیکشن اوربہتروسائل سے مالامال کرنے کی تجاویزموجودہیں تاکہ وہ بتدریج مسلم معاشروں کولبرل اورسیکولربناسکیں۔یہی وہ سوچاسمجھامنصوبہ ہے جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیاتھا۔قصہ مختصراس طرح کی حکمت عملی سے معاشرہ ایک انتشارکی آگ میں سلگنے لگتاہے ، جس کامشاہدہ ہمارے ہاں عام طورپرکیا جاتاہے۔ایک طرف قندیل بلوچاوردعازہراکی حمایت میں بولنے والے لوگ موجودہوتے ہیں اوردوسری طرف اسے سخت ناپسند کرنے والی اکثریت بھی۔ گویاایک ہی معاشرے میں دومختلف عقیدے،نظریہ حیات اورنکتہ ہائے نظرپیداہوجاتے ہیں۔لوگ ہرواقعے کودومختلف عینکوں سے دیکھنے لگتے ہیں،جس کے نتیجے میں معاشرے میں عدم رواداری اورتضادنمایاں ہوجاتاہے۔یہ رائے کانہیں بلکہ نقطہ نظرکا اختلاف ہے جومعاشروں کوتباہی کی طرف لے جاتاہے۔
آخراس انتشارسے نکلنے کاطریقہ کیاہے؟کس طرح معاشرے کواس انتشارسے بچایاجاسکتاہے؟تواس کاجواب سادہ ساہے کہ اس انتشارسے نکلنے کاصرف ایک ہی طریقہ ہے کہ معاشرہ کسی ایک عقیدے کودل وجان سے قبول کرلے۔ ایک ہی عقیدہ عملی اور نظری طورپرلوگوں کی زندگی کاحصہ ہو۔لوگ ایک واقعے کوایک ہی نقطہ نظرسے دیکھیں اوراس کے اچھے برے پہلوپربحث کریں۔ صرف یہی وہ حل ہے جومعاشرے کواس انتشارسے نکال سکتا ہے جس میں آج مسلم معاشرے سلگ رہے ہیں۔میرے خیال میں مسلمانوں کی اکثریت کاشعوری طورپرسیکولرعقیدے کواختیارکرناناممکنات میں سے ہے۔مسلمان اپنے عقیدے سے چاہے جذباتی طورپرہی سہی،بڑی مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔اس لیے کامل طورپرمسلم معاشروں کاسیکولر عقیدے میں ڈھل جاناناممکن ہے۔اس لیے واحد صورت یہی ہے کہ مسلم معاشروں میں قانونی اورفکری سطح پرعقیدہ اسلام ہی واحد بنیادہو۔پھرہی یہ ممکن ہے کہ مسلم معاشرے یکسوہوکرمادی اورروحانی ترقی کی ان منازل کی طرف قدم بڑھاسکیں جوان کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں وہ اس انتشارکی آگ میں ہمیشہ سلگتے رہیں گے۔