اب جبکہ امریکااوراس کے اتحادیوں کی افواج افغانستان سے نکل چکی ہیں،تمام پڑوسی ممالک افغانستان سے اپنے تعلقات پرنظرثانی کررہے ہیں۔امریکی انخلاء کے بعدطالبان رہنماؤں کے دورۂ چین نےافغانستان کے حوالے سے چینی عزائم کے بارے میں بہت کچھ سوچنے کی دعوت دی ہے۔زمین کاایک چھوٹاسا ٹکڑا ، ایک چھوٹی سی پٹی دونوں ممالک کے تعلقات کے حوالے سے کلیدی کردارادا کرسکتی ہے۔اس پٹی کے دونوں طرف مختلف النسل لوگ رہتے ہیں اور ان کے روابط گہرے ہیں۔
واخان راہداری کم وبیش217میل لمبی اور9میل چوڑی ہے جوافغانستان میں ختم ہوتی ہے۔یہ راہداری افغانستان اورچین کی47میل لمبی سرحدپرمحیط ہے ۔یہ راہداری1895ءمیں روس اوربرطانیہ کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں معرضِ وجودمیں آئی تھی اوراسے دونوں سلطنتوں کے درمیان بفرزون کا درجہ حاصل تھا۔اس کانظم ونسق علامتی طورپرکابل کے امیرکوسونپاگیاتھا۔اس راہداری کے شمال میں گورنوبدخشاں کاتاجکستانی علاقہ ہے جہاں1990ءکی دہائی میں انتہائی خوںریزی ہوئی تھی۔اس راہداری کے جنوب میں عظیم ترکشمیرہے جس پرپاکستان اوربھارت میں تنازعہ چل رہاہے۔واخان راہداری کے انتہائی مشرق میں برف پوش درّۂ وخجر کے پارچین کاصوبہ سنکیانگ ہے جس میں ترک نسل کے اویغورمسلم رہتے ہیں۔
واخان راہداری انتہائی پتھریلی اوردشوارگزارہے اورشایداسی لیے طالبان نے باقی افغانستان پرمتصرف ہونے کے باوجوداس راہداری میں قدم جمانے میں دلچسپی نہیں لی۔واخان راہداری کے مغربی حصے کے علاقے دریائے پنج میں طغیانی سے آنے والے سیلابوں کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔دونوں طرف واضح ڈھلوان والی بے آب وگیاہ پہاڑیاں ہیں۔مشرق کی سمت بڑھیں تودریائے پنج سے نکلنے والی آبی گزرگاہیں چھوٹے اوربڑے پامیرکے افغان علاقے ہیں ، جوسخت ترموسمِ سرمااورمتاثرکن بلندی کیلئےمعروف ہیں۔اس علاقے کیلئے14سال سے سیاحت کانظم ونسق چلانے والی کمپنی کے مالک جیمزولکاکس کے مطابق ایسادورافتادہ اورحواس باختہ کردینے والااجاڑخطہ شایدہی کہیں اورہو۔
اس خطے کی ثقافتی تاریخ بھی کم حیرت انگیزنہیں۔یہ دریائے پنج کے کنارے مغرب میںغیراستعمال ایک ایسااسٹوپاہے جواب بدھ ازم کے پیروکاروں کے شاندار ماضی کی داستان سناتاہے،جب چین کامعروف سیاح شوان زینگ یہاں آیا تھا۔آٹھویں صدی عیسوی میں یہاں واقع سرحدِ بروغل کے دیہات سے بالا ایک قلعہ تبت اورٹینگ سلطنتوں کے درمیان انتہائی اہم تجارتی راہداری شاہراہِ ریشم پرتصرّف کیلئےہونے والی لڑائی کاگواہ ہے۔واخان راہداری بھی شاہراہِ ریشم ہی کاحصہ رہی ہے۔
اس علاقے میں اسماعیلیوں کی اکثریت ہے،جن کے مکانات کی طرزِتعمیرایرانی فن وثقافت کے واضح اثرات لیے ہوئے ہے۔اس علاقے میں پائے جانے والے لوگ آج بھی سکندرِاعظم کے گُن گاتے ہیں جووسطِ ایشیامیں ہیروکادرجہ رکھتاہے۔اس کاجسدِخاکی یہاں لایاگیاتھا تاکہ اس کنیزسے ملاپ ہوجس کے عشق میں وہ دیوانہ تھا۔معروف سیاح مارکو پولوبھی اس راہ سے گزراتھا۔یہاں کی زبان نے اُس کی توجہ حاصل کی تھی۔واخان راہداری کے لوگ آج ایرانی زبانوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والے الفاظ سے تشکیل پانے والی زبان بولتے ہیں۔مشرقی ایران سے تعلق رکھنے والی یہ زبان بدخشاں اورپامیری خطے سے تعلق رکھتی ہے،جس سے تعلق رکھنے والی نسل کے لوگ تاجکستان،پاکستان،افغانستان اورچین میں بسے ہوئے ہیں۔پامیری نسل کے لوگوں کوروایات، رشتوں اورتجارت نے جوڑرکھاہے۔منشیات اورقیمتی پتھروں کی تجارت زیادہ پرکشش ہے گوکہ اب چینی سرحدپرغیرمعمولی نگرانی کانظام موجودہے۔
پامیرخورداورپامیربزرگ میں کرغیزنسل کے کم وبیش ایک ہزارافرادرہتے ہیں،جوایک طویل مدت سے مشکلات سہتے آئے ہیں۔ بیسویں صدی کے دوران تیزی سے بدلے ہوئے حالات میں انہوں نے سال میں ایک بارپہاڑی علاقوں کی طرف جانے کے بجائے وہیں ڈیرے ڈالنے کافیصلہ کیا۔2015ءسے 2019ءکے دوران کرغیزنسل کے ان لوگوں کے درمیان وقفے وقفے سے اچھاخاصاوقت گزارنے والے ماہرِبشریات ٹوبیازمارشل کاکہناہے کہ یہ لوگ اس گروپ کے بچے کھچے لوگ ہیں جس کی قیادت رحمن کُل خان کے ہاتھ میں تھی۔رحمن کُل خان کولوگ اب بھی جانتے ہیں۔1979ء میں پاکستان کیلئے ترک سفیرکی حمایت ملنے پررحمن کُل خان نے اپنے گروپ کے نصف ارکان کے ساتھ مغرب کی سمت خطرناک ہجرت شروع کی۔ٹوبیازمارشل کے مطابق ان میں سے بہت سوں نے وان نامی تالاب کے کنارے بودوباش اختیارکی،گوکہ بعدمیں ان میں سے بہت سے پامیرکے علاقے میں واپس آبادہوئے۔اس پورے گروپ کو الاسکامیں آبادکرنے کی ایک تجویزبھی سامنے آئی تھی۔
اپریل میں پہلی بارتبدیلی کے باضابطہ آثاردکھائی دیے جب کرغیزستان کے صدرسیدرجاپاروف نے نقل مکانی کے بعدکرغیزستان میں آبادہونے والے کرغیز نسل کے ان لوگوں سے ملاقات کرکے تسلیم کیاکہ ان لوگوں نے بہت کچھ برداشت کیاہے اوراب ان کی مشکلات کاخاتمہ ہوناہی چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ ان لوگوں کوان کے آبائی وطن میں آبادکرنے کی خواہش ایک مدت سے میرے دل ودماغ میں بسی ہوئی ہے اوراب وقت آگیاہے کہ اس حوالے سے واقعی کچھ کیاجائے۔جولائی کے اوائل میں طالبان مغرب کی سمت آئے۔اسٹریٹجک اہمیت کے باوجود واخان راہداری میں14ہزاریااِس سے کچھ ہی زیادہ لوگ آبادہیں۔طالبان کی آمدپرخوفزدہ ہونے کی بجائے لوگ یہ دیکھنے کیلئےگھروں سے نکل آئے کہ ان کے رہنماطالبان سے کیابات کرتے ہیں۔طالبان اورواخان راہداری کے لوگوں کے درمیان کچھ زیادہ گرم جوشی پرمبنی تعلقات نہیں رہے۔اس خطے میں اچھاخاصاوقت گزارنے اوریہاں کی زبانیں بولنے والی سوزین لیوی سانچیزکاکہناہے کہ چند مقامی گھرانوں کے لوگوں نے قابض سوویت افواج کے خلاف لڑائی میں مجاہدین کاساتھ دیکرعزت ضرورکمائی۔ان میں کچھ لوگ آج طالبان قیادت کاحصہ بھی ہیں۔
واخان راہداری میں آبادلوگوں میں80فیصداسماعیلی ہیں۔یہ لوگ طالبان کی انتہائی نوعیت کی بنیادپرستی میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ موناکومیں رہائش پذیر ارب پتی شاہ کریم الحسینی کیلئےاس علاقے میں غیرمعمولی احترام پایاجاتاہے۔واخان راہداری میں بنیادی ڈھانچے کوبہتربنانے،پوست کی کاشت پرانحصار گھٹانے، تعلیم اورسیاحت کوفروغ دینے سے متعلق آغاخان فاؤنڈیشن کے منصوبوں میں شاہ کریم الحسینی نے غیرمعمولی فنڈنگ کی ہے۔طالبان کی آمدنے واخان راہداری میں آبادلوگوں کوخوفزدہ کردیاہے۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہاکہ اب ہوگاکیا؟کیابچوں کی تعلیم جاری رکھی جاسکے گی؟کیاخواتین کوملنے والے حقوق کی پاسداری ہوسکے گی؟پامیرکے علاقے میں آبادکرغیزنسل کے لوگوں میں تواتنا خوف پایاجاتاہے کہ طالبان کی آمدکی سُن گُن ملتے ہی اُن کاایک گروپ واخانی چرواہوں کے ایک گروپ کے ساتھ تاجکستان بھاگ گیا، گوکہ کچھ ہی دنوں میں اُن میں بیشترکوواپس بھیج دیاگیا۔واپس آنے والے200افرادکہناتھاکہ ہوسکتاہے کہ ان کے ملک اورکرغیزستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث انہیں واپس بھیجاگیاہو۔ مئی میں تاجکستان اورکرغیزستان کے درمیان معدنی وسائل پر تصرف کے تنازع میں خوں ریزجھڑپوں کے دوران دونوں ممالک کے کم وبیش55فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
یونیورسٹی آف ایگزیٹرمیں یوریشیائی امورکے ماہرجان ہیدرشاکہتے ہیں کہ لسانی یانسلی بنیادپریکجہتی کااظہاراس خطے میں بڑھتا جارہاہے۔قومی سطح کی سوچ کافقدان معاملات کومزیدبگاڑتارہاہے۔کرغیزنسل کے لوگ بھاگ کرتاجکستان کے علاقے گورنوبدخشاں گئے تھے۔1990ءکی دہائی کے دوران اس علاقے میں انتہائی خوں آشام خانہ جنگ ہوئی تھی۔
2012ء اور2014ءمیں جنوب مغرب میں سرکاری فوج سے ان لوگوں کی جھڑپیں ہوئیں جوبشکیک کی اتھارٹی تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں یااس حوالے سے تحفظات کے حامل ہیں۔پامیرکے خطے میں قومی سرحدوں کے آرپارعوامی سطح کے تعلقات اتنے مستحکم ہیں کہ بہت سے تجزیہ کاراورمحققین باضابطہ سرحدوں کوبھی’’فرنٹیئرزون‘‘قراردیتے ہیں۔2012ءکے المناک واقعات کی ابتداواخان راہداری کے داخلی حصے پرافغانستان اورتاجکستان کے درمیان واقع اشکاسم نامی قصبے میں ایک ہلاکت سے ہوئی تھی۔
سرحدوں کے دونوں طرف پائی جانے والی نسلی یکجہتی چین کومضطرب کرتی ہے کیونکہ چینی صوبے سنکیانگ میں کروڑوں اویغورمسلمانوں کوکنٹرول کرنے پرغیر معمولی طاقت صَرف کی جارہی ہے۔کسی زمانے میں سنکیانگ کے باشندے واخان اورگورنو بدخشاں میں اپنے ہم زبان وہم نسل لوگوں سے باآسانی مل لیتے تھے۔طالبان ہی سہی،واخان راہداری پرتصرف مضبوط بناناہی اس مشکل کاواحدحل ہے۔
چین کی قیادت سنکیانگ کے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیلئےانتہاپسندی کوایک ٹھوس جوازکے طورپراستعمال کرتی ہے۔یہاں بھی تضادنمایاں ہے۔ ایک طرف تووہ سنکیانگ کے مسلمانوں پرانتہاپسندی کاالزام عائد کرتی ہے اوردوسری طرف طالبان سے معاملات طے کرنے میں اُسے کوئی الجھن محسوس نہیں ہوتی۔اس نوعیت کے معاملات کم ہی افغانوں کوحیرت سے دوچارکرتے ہیں اورواخان راہداری کے لوگوں کوتوخیریہ سب کچھ ذرابھی حیرت انگیزنہیں لگتا۔ بیجنگ کم وبیش ایک عشرے سے واخان راہداری کے گرد عسکری اورسفارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔”پورے”سے بخوبی واقف افرادکاکہنا ہے کہ چینی سیکورٹی فورسزاس علاقے میں ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے متحرک ہیں۔2012ءمیں چینی قیادت نے اس علاقے کے بااثرخاندانوں کے بچوں کوچین کے مطالعاتی دورے کیلئےاسکالرشپس دینے کاسلسلہ شروع کیا۔بعدمیں واخان راہداری کے سِرے پرواقع درّۂ وخجرپرگہری نظررکھی جانے لگی تاکہ سنکیانگ سے مسلمانوں کے فرارکی راہ مسدودکی جاسکے۔
چین ایک طرف توطالبان کے ساتھ مل کرلڑنے والے اویغورمسلمانوں کی مذمت کرتارہاہے اوردوسری طرف اس نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس نے واخان راہداری سے متصل گورنوبدخشاں کے علاقے میں فوجی تعینات کررکھے ہیں۔کہاجاتاہے کہ طالبان کے ساتھ مل کرلڑنے والے بہت سے اویغور مسلمان افغانستان میں ہیں۔ویسے افغانستان سے براہِ راست چین میں داخل ہونابہت مشکل ہے کیونکہ واخان راہداری کے مشرقی حصے کی غیرمعمولی نگرانی کی جاتی ہے۔
چینی قیادت نے افغانستان کے گرداپناجال مزیدوسیع کردیاہے۔انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں دائرکی جانے والی ایک درخواست میں دعویٰ کیاگیاہے کہ تاجکستان ان ممالک میں شامل ہے جواویغورمسلمانوں کوچین کے حوالے کرتے ہیں۔چین اورتاجکستان کے درمیان اس حوالے سے ایک معاہدہ بھی ہواہے۔تاجکستان اب چین،پاکستان اورافغانستان کے بہت نزدیک آچکاہے۔متعددخاموش معاہدے چین اور وسطِ ایشیاکے ممالک کومختلف منصوبوں کیلئےقریب ترلانے میں فعال کرداراداکررہے ہیں۔مئی میں چین کے بیلٹ اینڈروڈمنصوبے کے حوالے سے اعلیٰ سطح کاایک اجلاس اس امرکابیّن ثبوت ہے۔
واخان راہداری پرنظررکھناچین کی معاشی مجبوری بھی ہے۔بحیرۂ جنوبی چین کے خطے میں بڑھتی ہوئی دشواریوں کے پیشِ نظر چینی قیادت نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔شاہراہِ قراقرم کوبہترحالت میں رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ بحرِہندتک رسائی میں شاہراہ کلیدی کردارکی حامل ہے۔شاہراہِ قراقرام انتہائی دشوارگزارراستوں سے گزرتی ہے1960ءاور1970ءکی دہائیوں میں اس شاہراہ کی تعمیرکے دوران ایک ہزارسے زائدمزدوراورانجینئر ہلاک ہوئے۔ خطے کی ساخت بہت پیچیدہ ہے۔پُل تعمیرکرنے میں الجھنوں کاسامنارہاہے اورسرنگیں کھودنابھی کبھی آسان نہیں رہا۔
خیر،شاہراہِ قراقرم کوتجارت کیلئےانتہائی موزوں بنانے میں حاصل ہونے والی کامیابی اورمثالی نوعیت کے پاک چین اشتراکِ عمل نے واخان راہداری سے جُڑے ہوئے درّۂ وخجرپربھی توجہ دینے کی گنجائش پیداکی ہے۔واخان راہداری کے اس ٹکڑے میں سڑک کی تعمیرافغانستان کی حکومت نے2019ءمیں شروع کی تھی۔اس کامحض ایک حصہ ہی تعمیر کیاجاسکاہے۔یہ سڑک پامیرخوردتک جاتی ہے اوراس کی تعمیرسے الگ تھلگ پڑے ہوئے کرغیزنسل کے باشندوں اورواخان راہداری میں بسے ہوئے لوگوں کے درمیان تجارت آسان ہوئی ہے۔اب تک اس امرکاکوئی ٹھوس اورواضح ثبوت نہیں ملاکہ چین نے اس سڑک کی تعمیرمیں کوئی کرداراداکیاہے،اورنہ ہی طالبان نے چینی قیادت سے مذاکرات کے دوران ایسی کوئی ضمانت فراہم کی ہے کہ وہ اس خطے میں کسی شاہراہ کی تعمیرکوقبول کریں گے تاکہ تجارت کادائرہ وسیع ہو۔
خطے کی بدلی ہوئی صورتِ حال میں ایک بات توبہت واضح ہوکرسامنے آئی ہے اوروہ بات یہ ہے کہ وسطِ ایشیاکی بیشترمعیشتوں کو مضبوط رکھنے میں کلیدی کردار چین کاہے۔تاجکستان اس کی ایک واضح مثال ہے۔بڑے پیمانے کی تجارت،برآمدات اوربیرونی سرمایہ کاری کے معاملے میں تاجکستان کاکم وبیش مکمل انحصار چین پرہے۔یہی سبب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع بھی بہت حدتک ختم ہوچکاہے اورچین نے تاجکستان کی کم وبیش ایک ہزار مربع کلو میٹرزمین بھی واپس کی ہے۔
چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے افغانستان نسبتاًمزاحمتی مزاج کاحامل رہاہے۔میس اینک کے مقام پرتانبے کی ایک بڑی کان کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کے گروپ نے حاصل توکیامگراِس منصوبے پرکام رکاہواہے۔ہاں،مغرب کے بہت سے سرمایہ کاروں کیلئےچینی کمپنیوں نے ٹھیکیداروں کاکردارضروراداکیا ہے ۔ افغانستان میں حالات کی تباہ کن نوعیت بدلے بغیراوربیرونی سرمایہ کاری کیلئےزیادہ سے زیادہ تحفظ کی ضمانت فراہم کیے بغیرچین اورافغانستان کے معاشی تعلقات میں نمایاں بہتری کاامکان نہیں۔چینی انٹیلی جنس کے واخان راہداری کے ذریعے افغانستان تک رسائی ایک اچھاطریقہ ہے۔
چین کئی برس سے افغانستان میں اپنے مفادات کازیادہ سے زیادہ تحفظ یقینی بنانے کیلئےکوشاں ہے۔گزشتہ دسمبر میں کابل میں چین کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والاایک گروہ پکڑاگیاتھا۔واخان راہداری میں جولوگ رہتے ہیں وہ خواہ کچھ چاہتے ہوں،یہ خطہ بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤکی کیفیت پیداکرتارہے گاکیونکہ اس راہداری پرمتصرف ہونے میں بہت سوں کابھلاہے۔