Loud Slap

زناٹے دارتھپڑ

:Share

کلنگہ کے مقام پرآخری لڑائی ہوئی،شام کے وقت وہ شمالی ہندوستان کابلاشرکت غیرے مالک تھا،وہ گھوڑے سے اترا، سامنے میدان میں ہزاروں نعشیں بکھری پڑی تھیں،اس نے زندگی میں کبھی اتنی نعشیں نہیں دیکھیں تھیں۔اس نے اپنے مشیر سے پوچھا”بھلا کتنے لوگ مارے گئے؟”مشیر نے سینہ پھلاکر جواب دیا”کم وبیش ایک لاکھ”وہ فوری نیچے بیٹھ گیا،اس کے سینے سے ہوک اٹھی اور ہندوستان کاسب سے بڑابادشاہ دل پرہاتھ رکھ کرپھوٹ پھوٹ کرروپڑا۔اس کی مال ومتاع سمیٹتی فوج ٹھٹک کررہ گئی،وہ چلاچلاکرکہہ رہاتھا “اشوک تم نے ایک لاکھ لوگ ماردیئے،ان کاکیاقصور تھا؟” وہ بلک بلک کرروتارہا، آنسو تھمے تو وہ ایک نیا انسان تھا،اس نے نیام سے تلوار نکالی،دریا میں پھینکی اورہندودھرم ترک کرنے کااعلان کردیا۔

اشوک کے باپ نے16شادیاں کیں،اس کے100سےکہیں زیادہ بیٹے تھے۔اشوک پیدائشی بادشاہ تھالیکن دنیاکاسب سے بڑافاتح اوربادشاہ بننے کیلئےاس نے فتوحات کاآغازاپنے بھائیوں سے کیا۔ایک ایک کرکے سارے بھائی مروادیئے،آخرمیں بادشاہ بن گیا۔ہوسِ اقتدارزیادہ تھی اور سلطنت چھوٹی لہندا فاتح عالم بننے کیلئے گھرسے نکل کھڑاہوا۔راستے میں جوآیاکچل دیا،جس نے سراٹھایاروندڈالا۔ہزاروں لاکھوں لوگ اس کی خواہش کاایندھن بن گئے لیکن کلنگہ کی فتح،ہاں!اس خرابے نے گویااس کی کایا پلٹ دی۔اس نے سراٹھایا،سامنے اس کی فوج کھڑی تھی۔اشوک کے پاس اس وقت دنیاکی سب سے بڑی اور انتہائی جدیداور بہادرفوج اس کے ایک اشارے پرجان دینے کیلئے تیارتھی۔اس کے پاس سات لاکھ پیادے،تیراندازاورگھڑسوارتھے۔اس نے یہ سورماچن چن کرسارے ہندوستان سے اکٹھے کئے تھے۔اس نے کلنگہ کے میدان میں ہی فوج کے خاتمے کااعلان کردیا، اس طرح سات لاکھ فوجی فی الفوربے روزگارہو گئے۔

وہ واپس پلٹا،ہندودھرم سے لاتعلقی کااعلان کیااوربدھ مذہب اختیارکرنے کااعلان کردیا۔حکومت کاری کے چنداصول وضع کئے۔یہ اصول ایک ایک شہر، ایک ایک گاؤں اورقریہ قریہ کندہ کردیئے گئے۔اس نے پورے ملک سے چن چن کرایماندار، محنتی لوگ اکٹھے کئے،انہیں”مہامیر”کا خطاب دیکرمختلف علاقوں کاوالی بنادیا۔ان لوگوں نے سب سے پہلے برہمن اورشودر کاتصورتوڑا،امیراورغریب کی تعریف ختم کی اورپھرخدمت میں جت گئے۔اشوک کی حکومت کاری کے دوبڑے اصول تھے ،خدمت اورانصاف!اس نے پوری سلطنت میں سڑکیں بنوائیں،سڑکوں کے کنارے درخت لگوائے،کنوئیں کھدوائے،درس گاہیں اورمنڈیاں بنوائیں۔مسافروں کیلئے مسافر خانے بنوائے جہاں مفت قیام کی اجازت تھی۔

وہ دنیاکاپہلابادشاہ تھاجس نے جانوروں کے ہسپتال کاتصوردیا،جس نے عورتوں کومردوں کے برابرحقوق دیئے،جویہ کہتا تھاکہ بچوں کی پرورش والدین نہیں بلکہ حکومت کافرض ہے۔جویہ سمجھتاتھاجوحکمراں اپنی عوام کوروٹی کپڑا،تعلیم اور دوانہ دے سکے اسے حکومت کاکوئی حق نہیں۔ رہا انصاف تواس کی سلطنت کے آخری گاؤں میں بھی کسی کے ساتھ کوئی ظلم ہوتاتو ظالم کومعلوم ہوتاکہ دنیاکی کوئی طاقت اسے اشوک سے نہیں بچا سکتی۔کلنگہ کی فتح تک وہ صرف شمالی ہندوستان کابادشاہ تھالیکن جوں جوں اس کی خدمت اورانصاف کی شہرت پھیلی اردگردکی ریاستوں نے خودہی شامل ہونے کی درخواست کردی،یہاں تک کہ وہ اشوک سے اشوک اعظم بن گیا۔اس کی سلطنت اڑیسہ سے گلگت اوربنگال سے دکن تک پھیل گئی ۔پورے ہندوستان پرحکومت کااعزازصرف تین بادشاہوں کوحاصل ہے،اشوکِ اعظم،اورنگ زیب عالمگیراورآخرمیں تاجِ برطانیہ۔ان تینوں میں اشوکِ اعظم پہلاشخص تھا۔

فوج کے بغیرحکومت کاتصوراس کاخدمت اورانصاف سے بڑاکارنامہ تھا۔اس کے پاس سات لاکھ فوج،دس ہزارجنگی رتھ اور نوہزارتربیت یافتہ ہاتھی تھے۔ اشوک کے ایک حکم سے ساری فوج بے روزگارہوگئی،اس کے مشیروں نے سمجھایا،جہاں پناہ !چین کے ہن اوریونان کے طالع آزماسرحدوں پرکھڑے ہیں، ہمارے پاس فوج نہ ہوئی تووہ حملہ کردیں گے۔اشوک مسکرایااور سر پرہاتھ پھیرتے ہوئے بولا”میں سات لاکھ کی بجائے سات کروڑکی فوج تیارکروں گا۔”مشیروں نے حیرت سے دیکھا، اشوک نے کلام جاری رکھا”فوجوں کی ضرورت ان بادشاہوں کوہوتی ہے جن کے عوام ان سے خوش نہیں ہوتے،میں اپنے شہریوں کواتنا سکھ،اتناچین،اتناآرام اوراتناانصاف دوں گاکہ اس ملک کابچہ بچہ اپنی سرحدوں کی جان دیکربھی حفاظت کرے گا۔”اشوک نے یہ سچ کردکھایا،اس کے دور میں کوئی بیرونی حملہ آورہندوستان میں داخل ہوااورنہ ہی کسی اندرونی شورش نے سراٹھایا۔وہ پہلابادشاہ تھاجس نے فوج کے بغیرہندوستان جیسے ملک پرحکومت کی۔اشوک کی موت کے بعد47برس تک اس کانظام قائم رہاپھرمحلاتی سازشیں شروع ہوئیں،اس کاپوتابربندرناتھ قتل ہوا،گپتاخاندان برسرِاقتدارآیا،فوج بنی اور اس کے بعدہندوستان ایک بارپھرقتل وغارت گری کاایساشکارہواکہ آج اس ترقی یافتہ دورمیں بھی سب سے بڑی جمہوریت کاجھوٹا دعویٰ کرنے کے باوجود اپنے ہی شہریوں کوجان سے مارنے کی دنیامیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔

اشوک کہتاتھاخدمت اورانصاف ہوتوفوج کی ضرورت ہوتی ہے اورنہ ہی روپے پیسے کی۔میراخیال ہے اشوک کافلسفہ ادھورا تھاکیونکہ وہ اپنی اس قدربڑی اورفلاحی ریاست میں آرایس ایس اوربی جے پی جیسی فرقہ پرست تنظیموں کااحیاء نہ کرسکا جواس کے جاانے کے بعداس سرزمین پرصرف برہمن ہندوؤں کواونچی ذات قراردیکرسفیدوسیاہ کامالک قرارنہ دیکرایساخلاء چھوڑگیاجس کی تکمیل کیلئے آج کے ہندوپرست مودی اوراس کے ہمنواؤں کواشوکاکاجانشین بننے کی بجائےچانکیہ کی اولاد بننازیادہ پسندہے۔

اکیسویں صدی میں دنیاجیسے جیسے گلوبلائزہوتی گئی اورمادی ترقی بڑھتی گئی توساتھ ہی انسانی حقوق کےخدشات نےبھی عالمی جگہ لے لی جس میں با لخصوص ناپاک سیاسی عزائم کی تکمیل اورقومی مفادکی خاطرانسان نسل پرستانہ وشدت پسندانہ نظریات کی بھینٹ چڑھ گیااورنسلی بنیادوں پرانسانی استحصال ونسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی میں مودی سرکارنے ایسابھیانک ریکارڈقائم کیاہے کہ وراثت میں آئندہ نسلوں کیلئےتاریخی شرمندگی کاخاصاسامان چھوڑکرجائی گی۔انتہاء پسندانہ نظریات کی حامل شخصیات واربابِ اقتدارنے انسان دشمنی کوفروغ دیتے ہوئے انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی یہاں تک کہ عصرِحاضر کےنام نہادداعی امن ممالک اورجمہوریت پسندریاستیں انسانیت سے ایسا برتاؤدیکھ کربھی بالکل خفت محسوس نہیں کرتیں اوریہ تلخ حقیقت ہے کہ اب عالمی ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جمہوریت کاخودساختہ علمبرداراورانسانی حقوق پرمصنوعی راگ الاپنے والابھارت اب عدمِ تحفظ کے لحاظ سے صفِ اول میں قراردیاگیاہے۔

اقلیتوں کےحقوق ہوں یابھارت میں دیگربسنے والوں کےحقوق،ہندوبنیااپنے نسل پرستانہ اورانتہاء پسندانہ نظریات کی تقلیدمیں انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہاہے-اسی ضمن میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں بالخصوص مسلمانوں پرجومظالم ڈھائے جارہے ہیں اوران کی شناخت ختم کرنے کیلئے جوناپاک اقدامات کئے جارہے ہیں اس سے یہ خدشہ جنم لیتاہے کہ مسلمانوں کیلئے بھارت ایک اوراندلس بننے جارہاہے۔ اشوکاکی روح تویقیناًتڑپتی ہوگی جب بھارت میں بسنے والی اقلیتوں کےحقوق کی پامالی،عدمِ تحفظ اورنام نہادداعی امن ریاست (بھارت)کی انسان دشمنی وانتہاءپسندی دنیاکے سامنے عیاں ہوتی چلی جارہی ہے جس سےبخوبی اندازہ ہوتاہے کہ سیکولربھارت ہندونیشنلزم اورہندوبالادستی کوفروغ دینے کی خاطرکس قدرمکارہتھکنڈے اپنارہاہے۔

فرانسسکوکیپوٹرٹی جواقوامِ متحدہ میں امتیازی(جیسے نسلی،لسانی،مذہبی) کی روک تھام اور اقلیتوں کے تحفظ کیلئے بنائے گئے سب کمیشن کے خصوصی رپورٹررہ چکے ہیں-1977ءمیں انہوں نے اقلیت کی یہ تعریف پیش کی کہ:ایساگروہ جوکسی ریاست میں اس کی کل آبادی کی نسبت عددی طورپرکم ترہو،غیرغلبہ کی پوزیشن میں ہو،جس کے افراد ریاست کے شہری ہوتے ہوئے ریاست کی باقی آبادی کی نسبت مختلف نسلی،مذہبی یالسانی خصوصیات رکھتے ہوں اوراگر صرف اپنی ثقافت، روایات،مذہب یازبان کے تحفط کیلئے واضح طورپریکجہتی کااحساس ظاہرکریں۔

معروف امریکی مصنف جوئل آرپروس اقلیت کی جداگانہ حیثیت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقلیتی گروہ کی جداگانہ حیثیت سے مرادیہ ہے کہ معاشرے میں اس گروہ کے غلبے کی کمی ہو-ضروری نہیں کہ اس گروہ کی حیثیت کل آبادی کے نصف سے بھی کم ہو اگراقلیتوں کی بات کی جائے تواس وقت بھارت میں مسلمان،عیسائی،سکھ اوربدھ مت جیسی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں جواپنے جان ومال کے تحفظ اورمذہبی آزادی کیلئے ہندوبنیے کے رحم وکرم پرہیں۔سرکاری اعدادوشمارکے مطابق بھارت میں مسلم اقلیتوں کی تعداد (14.2فیصد)،(عیسائی 2.3فیصد)،(سکھ 1.7فیصد)اور بدھ مت (0.7فیصد)ہیں۔

تاریخی تناظرمیں دیکھاجائے توتقسیم ہند(1947ء)کے بعدبھارتی قیادت نے اقلیتوں کااعتمادجیتنے کیلئے وقتی طورنعرہ بلندکیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہوگی جس میں ہندو،مسلمانوں،سکھوں،عیسائیوں اوردیگرمذاہب کے لوگوں کویکساں حقوق حاصل ہوں گےلیکن ایساعملی طورپرہندستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوااور اقلیتوں کوہمیشہ انتہاءپسندہندوؤں کی طرف سے ظلم وجبراورامتیازی سلوک کاسامناکرناپڑااورانہیں مجبورکیاگیاکہ وہ ہندوبالادستی قبول کرلیں-ایسے ہی جیسے تاریخ میں اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیاگیااورانہیں مجبورکیاگیاکہ وہ تین میں سے ایک آپشن قبول کرلیں(1)عیسائیت قبول کرلیں(2) ہجرت کرجائیں(3) قتلِ عام کیلئے تیار ہوجائیں-موجودہ ہندوستان میں بھی اقلیتیں بالخصوص مسلمان کچھ اسی طرح کی صورتحال سے دوچاراپنے حقوق سے محروم بے دست وپازندگی گزارنے پرمجبورہیں۔بھارت میں اقلیتوں کومذہبی آزادی کانہ ملنا،حقِ رائے دہی کانہ ملنا،انصاف کانہ ملنا،بنیادی حقوق(صحت،تعلیم،رہن سہن)سے محرومی ،غربت، بے روزگاری،تشدد،دہشتگردی وانتہاءپسندی جیسے مسائل کاسامناہے جس کے خاتمے کیلئے بھارتی حکومت انتہائی غیر سنجیدہ،نسلی تعصب کی بنا پر اقلیتوں کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے اور خودکواشوکاکی وارث بھی کہہ رہی ہے۔

معروف بھارتی مصنفہ ارون دتی رائے نے 23 دسمبر2015ءکوبمبئی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں اورتشددپرستی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ روّیوں کو’’عدم روداری‘‘کے چھوٹے سے نام میں موسوم نہیں کیاجاسکتا۔یونائیٹڈسٹیٹ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن(یوایس سی آرآئی ایف) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق آخری عشرے سے ہندو قومیت پسند گروہوں کی کثیرالجہتی مہم کی وجہ سے اقلیتوں کے حالات بگڑگئے ہیں-(مذہبی اقلیتیں)تشدداورغنڈہ گری سے لے کر،سیاسی طاقت کے خاتمے ، حقِ رائے دہی سے محرومی اوراختلافی پن جیسے مسائل کاسامناکررہی ہیں مثلاًمزید اقلیتوں کو ہندو بالادستی قبول کرنے کیلئے مجبورکیاجانابھی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے-اطلاعات کے مطابق دسمبر2014ءمیں آگرہ (اُترپردیش) پرعوامی اجتماع میں سینکڑوں مسلمان جبری طور پر ہندو ازم میں تبدیل کیے گئے۔

بھارت میں اقلیتوں کیلئے باقاعدہ قوانین موجودہونے کے باجودوہ اپنے حقوق سے محروم ہیں جس کی بڑی وجہ اس قانون کابرائے نام (لاگو نہ ہونا) ہے۔ مثلاً اقلیتوں کے تعلیمی حق سے متعلق انڈین آئین آرٹیکل30کے مطابق”ریاست تمام اقلیتوں کوخواہ وہ مذہبی ہوں یا لسانی،انہیں اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے کاحق حاصل ہوگا اورریاست تعلیمی اداروں کوامدادفراہم کرنے میں کسی بھی اقلیت کے زیرِانتظام تعلیمی ادارے سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کرے گی”۔لیکن بد قسمتی سے اس کے باوجوداقلیتوں کے بیشترافراداپنے تعلیمی حق سے محروم ناخواندگی کی زندگی گزار رہے ہیں-اگربالفرض کہیں تعلیم دی بھی جاتی ہے توصرف ہندومت کی اورپورا نصابِ تعلیم ہندومذہب کے گردگھومتاہے جوفی الحقیقت اقلیتوں (بالخصوص مسلمانوں کی) تہذیب وثقافت ختم کرنے کیلئےایک چال ہے- یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمان تیارہوجائیں ان کے آثارمٹائے جارہے ہیں جس طرح تاریخ میں مسلمانانِ اندلس کے ساتھ کیاگیابعین وہی بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیاجارہاہے۔

اسی طرح اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی اوران کیلئے غیرمؤثرقانونی نظام کاغیرمبہم اظہارہمیں درج ذیل سطورمیں بھی ملتاہے۔
بھارتی حکومت اکثرقومی اورریاستی دونوں سطح پرمذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اپنے کیے گئے آئینی وعدوں کونظراندازکرتی ہے-قومی اور ریاستی قوانین اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کیلئے کھلم کھلا استعمال ہوتے ہیں۔ بی جے پی،کانگریس پارٹی اور(بھارتی عوامی پارٹی) کی زیرِ قیادت حکومتوں کے تحت مذہبی اقلیتی برادریوں اوردلتوں کوامتیاز اور ظلم وستم کاسامناہے جس کی وجہ حدسے زیادہ توسیع یاغیرواضح قوانین ، غیرمؤثرفوجداری نظامِ انصاف اورقانونی تسلسل کافقدان ہے-بالخصوص2014ءسے،نفرت انگیز جرائم،سماجی بائیکاٹ،حملوں اورجبری تبدیلی میں خطرناک حدتک اضافہ ہوا ہے۔

مودی سرکارکی تعصبانہ پالیسیوں کے باعث اس ریاست کے آزاداورخودمختارادارے بھی اقلیتوں کے خلاف متعصب ہو گئے ہیں اوریہ کہنابے جانہ ہوگاکہ مودی سرکارفاشسٹ ہٹلراورمسولینی سے بھی بدترنظام کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔مودی سرکار اوران کے وزراء بالکل ہٹلرکی مانند ہیں-اپنی پارٹی کے منشوراور ملک کے دستوراورجمہوریت سے ان کا دوردورتک کوئی واسطہ نہیں-ملک میں بسنے والی اقلیتوں سے وہ ہٹلرجیساسلوک کرتے ہیں،جس طرح ہٹلرصرف جرمن قوم کواعلیٰ سمجھتاتھا اسی طریقے سے مودی سرکار ہندؤں کواعلیٰ سمجھتے ہوئے اقلیتوں پراوچھے،غیراخلاقی اورغیر انسانی حربے استعمال کررہی ہے۔

آپ شاہراہِ ریشم پرسفر کریں آپ کوراستے میں آج بھی اشوک کے کتبے نظرآئیں گے۔ہزاروں سال بعدآج بھی ہندوستان میں اشوک کے کھدوائے کنوئیں اور سڑکیں موجود ہیں۔یہ سڑکیں،یہ کنوئیں اوریہ کتبے آج بھی چیخ چیخ کرمودی سرکارکے متعصب چہرے پرزناٹے دارتھپڑ رسید کر رہے ہیں۔یہ درست ہے لیکن جن پراحسان کئے گئے ہوں ان کی نسلیں تک اپنے محسنوں کویادرکھتی ہیں۔اہل سندھ آج بھی محمد بن قاسم کی یادمناتے ہیں اوریہ آج بھی محمدبن قاسم کی تصویر کی طرف پشت نہیں کرتی۔

“يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُالنَّاسُ أَشْتَاتًا لِّيُرَوْاأَعْمَالَهُمْ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ”

اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کودکھائیں جائیں اورپھرجس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اس کودیکھ لے گااورجس نے ذرہ برابربدی کی ہوگی،وہ اس کودیکھ لے گا۔”
محسنوں کوکوئی نہیں بھولتا،صرف ہٹلر،مسولینی،بش اوراب مودی کے نام ایسے ہیں جن کو تاریخ نفرت کیلئے محفوظ رکھے گی!

اپنا تبصرہ بھیجیں