گزشتہ سال ستمبرمیں متحدہ عرب امارات اوربحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے فیصلے سے ترک صدر مشتعل ہوگئے۔تاہم دسمبر کے اوائل تک خود کوعثمانیوں سے منسوب کرنے والے صدرنے اسرائیل میں ایک عبرانی بولنے والا سفیربھیج دیا،دوسال بعدترکی اوراسرائیل کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔شام اورعراق میں ترکی کی فوجی مداخلت،اخوان المسلمون کی حمایت اورخاشقجی کے قتل کے واقعات سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات پرطویل اثرات پڑے تاہم ریاض میں جی ۔20سربراہی اجلاس سے قبل شاہ سلمان کے ترک صدرکوفون سے دونوں ممالک کے تعلقات بہترہونے کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔جس کے بعدحیرت انگیزطورپرباکومیں اردگان نے آذری نظم پڑھی،جس پر ایران نے شدیدردِعمل کااظہارکیا۔اردگان نے جرمن چانسلراینجیلامرکل سے بھی کرسمس سے قبل بات چیت کی اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کے نئے دورکے آغازکا وعدہ کیا ۔انہوں نے مشرقی بحیرہ روم میں گیس کی تلاش کے معاملات یورپی یونین کے ساتھ جلد حل کرنے کی خواہش کااظہارکیا اور یونان کی شکایت کی کہ وہ بات چیت کیلئے تیا رنہیں ہے۔
اس دوران روسی ایس400میزائل دفاعی نظام کی خریداری پرترکی پرٹرمپ نے500ملین ڈالرکی دفاعی پابندیاں عائدکردیں اورانہیں روسی میزائل کی خریداری پر نیٹو سے نکالنے کی دہمکی بھی دی جوانقرہ کیلئے ایک دھچکاتھا۔زیادہ ترمبصرین کے خیال میں کچھ عرصے سے اردگان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجہ امریکی انتخابات میں بائیڈن کی کامیابی ہے۔یہ قابل ذکربات ہے کہ نیو یارک ٹائمز کوجنوری2017 میں انٹرویوکے دوران بائیڈن نے اردگان کوآمریت پسندقراردیتے ہوئے کہا تھاانہیں اپنی سیاسی زیادتیوں کی قیمت ادا کرناہوگی۔ٹرمپ کے چاربرس اردگان کے سیاسی کیریئرکیلئے بہترین رہے،اس دوران اردگان نے جارحانہ خارجہ پالیسی اختیارکرتے ہوئے شام،لیبیااورآذربائیجان میں کھلی مداخلت کی۔اسی لیے بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اوراردگان کوبھائی بھائی قراردیاجبکہ اردگان کودنیا کا ٹھگ بھی کہا۔
اسی تناظرمیں امریکی انتخابات میں بائیڈن کی جیت کے بعد ترکی نے خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔اردگان نے انسانی حقوق اورمعاشی بدحالی سے نمٹنے کیلئے بھی اقدامات کا سلسلہ شروع کررکھاہے۔اس حوالے سے ترک حکومت نے انسانی حقوق ایکشن پلان کاآغاز9دسمبرکوکیاجس کامقصد ترکی میں قید ممتاز سیاستدان،سول سوسائٹی ممبران اوردسیوں ہزار افراد کے حوالے سے عالمی خدشات کودورکرناہے۔انسانی حقوق کے گروہوں نے حکومتی اقدامات کومحض دکھاوا قرار دیاکیونکہ صدرنے سیلہٹن ڈیمیر تاس جیسے سیاستدان اورعثمان والاجیسے سماجی کارکن کو بھی رہا کرنے سے انکارکردیا ہے۔مبصرین کے خیال میں انسانی حقوق کے حوالے سے اصلاحات کی بات دھوکے کے سواکچھ نہیں،سیکورٹی ایجنسیوں نے حال ہی میں کروناکے حوالے سے حکومتی اقدامات پرتنقید کرنے والے500افراد کو حراست میں لیا۔
اردگان نے انسانی حقوق کے حوالے سے اصلاحات کااعلان اپنے دامادبیراٹ البرک کووزیر خزانہ کے عہدے سے برطرف کرنے کے ساتھ کیا۔دامادکے دورمیں لیراکی قیمت غیر معمولی طورپرتین گناکم ہوگئی اورافراطِ زرباضابطہ طورپر41فیصدتک بڑھ گیا۔ موڈیزنے قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے ترکی کی درجہ بندی کوبہت حدتک گھٹادیاجس کی وجہ سے ادائیگیوں کاتوازن بگڑنے کاخدشہ پیداہوگیا۔اردگان نے صورتحال پرقابو پانے کیلئیمرکزی بینک کانیاڈائریکٹرلگایاجس نے بڑے پیمانے پرمعاشی اصلاحات کااعلان کیا۔ اردگان مغرب کے ساتھ دوبارہ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں،تاکہ اپنی معیشت بہتر بنانے کے ساتھ بیروز گاری پرقابوپایاجاسکے حالانکہ اردگان اوران کے حامی برسوں مغرب کو برابھلاکہتے رہے۔حکمران اے کے پی کی مقبولیت میں تیزی کے ساتھ کمی آرہی ہے۔حکمراں جماعت دوبڑے شہر استنبول اورانقرہ میں بلدیاتی انتخابات ہارچکی ہے۔رائے عامہ کے حالیہ جائزے بتاتے ہیں کہ2001میں اپنے قیام کے بعدپہلی بارپارٹی کی مقبولیت30فیصد سے نیچے آچکی ہے۔معاشی بدحالی اور کروناسے برے اندازمیں نمٹناحکمراں جماعت کی مقبولیت میں کمی کی وجہ بنی۔کروناکے دوران حکومت نے ملک میں صرف علامتی مریضوں کااعلان اوروباکی سنگینی کوعوام سے چھپانے کی کوشش کی۔ دسمبرمیں حکومت نے وباکی اصل صورتحال سے عوام کوآگاہ کرناشروع کیا،جس کے مطابق ترکی میں روزانہ تیس ہزار افرادوائرس سے متاثرہورہے ہیں۔ترک میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت کی اعلان کردہ تعداد اب بھی اصل متاثرین کی تعدادکے مقابلے میں کافی کم ہے۔ حکومت نے نئے سال کی تعطیلات تک کرفیواورلاک ڈاون کودوبارہ نافذکردیاہے۔
ترک صدرکارویہ انتہائی جارحانہ ہے۔انہوں نے کریمیاکے معاملے پریوکرائن کی حمایت کرکے اپنے نئی اتحادی روس کوبھی ناراض کرنے کاخطرہ مول لیاہے۔ترکی نے مؤقف اختیارکیاکہ روس کوکریمیایوکرائن کوواپس کردیناچاہیے۔ترکی نے ہمیشہ ہی بحیرہ اسودمیں روسی بالادستی کامقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔یوکرائن کے وزیرخارجہ کے حالیہ دورہ انقرہ کے دوران میڈیاپر ترکی کی جانب سے48مسلح ٹی بی2ڈرون یوکرائن کوفروخت کرنے کی خبریں آئیں،یہ ڈرون آرمینیااورآذربائیجان کی جنگ میں اپنی صلاحیت منواچکاہے۔
اس طرح کے حساس ڈرون کی فروخت سے ماسکواورانقرہ کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں روس نے بہت سے محاذوں پرترکی کی حمایت کی ہے یہاں تک کہ روس نے ترکی سے دوستی کی خاطراپنے اتحادی آرمینیاکے خلاف آذربائیجان کی فتح کومذاکرات کے دوران یقینی بنایا۔ماسکونے انقرہ کے حق میں شام اورلیبیامیں اپنے مفادات بھی قربان کردیے۔اب روس شام میں وائی پی جی کے کردجنگجوں سے عین عیسی شہراسدحکومت کے حوالے کرنے کی التجاکررہاہے تاکہ شہرکوترک حملے سے محفوظ رکھاجاسکے۔تاہم روس ترکی کی حمایت میں اپنے مفادات ایک حد تک ہی قربان کرسکتاہے،خاص کرکریمیاکے معاملے میں تنابڑھ گیاتوتعلقات خراب بھی ہو سکتے ہیں۔کئی برس تک اردگان نے اپنی شبیہ ایک مضبوط اورملک پرآہنی گرفت رکھنے والے جمہوری رہنماکے طورپرقائم رکھی۔
اردگان صدام حسین کے بعدسنی دنیامیں ایک طاقتوررہنماکے طورپرابھرے۔ترک صدرنے فلسطین اورکشمیرجیسے معاملات پرکھل کرگفتگوکرکے مسلمانوں کے ایک ہونے کاتاثرقائم کرنے کی کوشش کی۔اردگان کی مغرب کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کے نتیجے میں مسلم دنیامیں ان کے پرجوش حامیوں میں کمی آرہی ہے۔ آیاصوفیہ کو مسجدمیں تبدیل کرنے کے بعدمغربی رہنماں کااردگان پراعتمادکاامکان بہت کم ہے۔جب سعودی عرب نے کشمیر کے معاملے پر عمران خان کے اوآئی سی کاخصوصی اجلاس بلانے کے منصوبے پرپانی پھیردیا اس کے بعدترکی کاکشمیر کے معاملے کو فلسطین سے زیادہ اہمیت دینے کاامکان کم ہی ہے ۔شایداردگان کی کشمیر پالیسی بھی ملائیشیاکی طرح تبدیل ہوجائے۔ اردگان کی خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلی بتاتی ہیں کہ بائیڈن کے اقتدارمیں آنے کے بعددنیابدل سکتی ہے۔