برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اورآنجہانی لیڈی ڈیاناکے دوسرے صاحبزادے پرنس ہیری کوان کی والدہ عام انسان دیکھنا چاہتی تھی چنانچہ لیڈی ڈیانانے شاہی روایات توڑتے ہوئے ہیری کوعوامی پارکوں،کھیل کودکے میدانوں،میکڈونلڈاورسینماگھروں میں لے جانا شروع کیا،پرنس ہیری بارہ برس تک اپنی ماں کے ساتھ لندن کی عام زندگی دیکھتے رہےلیکن1997ءمیں اپنی ماں کے انتقال کے بعد دوبارہ شاہی خاندان کی روایات میں دفن ہو گئے۔1988ءمیں سکول کی تعلیم کیلئے ایٹن آئے توانہوں نے آزادی کاذائقہ چکھنے کیلئے سپورٹس کاسہارا لیا،وہ فٹ بال،سکینگ اورگھڑ سواری میں دلچسپی لینے لگے، پرنس2005ء میں ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ میں داخل ہوئے،انہوں نے44ہفتے کی عسکری ٹریننگ کی بعد برطانوی فو ج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ ونڈسرمیں بلیوز اوررائل رجمنٹ جوائن کرکے تمام خطرناک اورمشکل آپریشنزمیں حصہ لیا۔
پرنس ہیری اکتوبر2007 کے آخرمیں برطانوی اخبارات کی”کورسٹوریز”اورٹیلی ویژن کی خبروں میں بھی بری طرح”ان”ہو گئے۔ پرنس ہیری کی مشکلات کاپس منظربہت دلچسپ تھا۔پرنس ہیری نے مشرقی برطانیہ نورفوک میں ملکہ برطانیہ کی بہت بڑی جاگیر کے علاقے نائم سینڈرنگ ہیم کے شاہی محل کے ساتھ ایک طویل جنگل میں ایک خاص قسم کی نایاب براؤن رنگت کی مادہ اوراس کے نرجوخواراک کی تلاش میں پرواز کررہے تھے۔پرندوں کے شکارپرپابندی کے علاقے میں لاعلمی میں دوفائرکئے اوریہ دونوں پرندے زخمی ہو کرگرگئے۔ سینڈرنگ ہیم کے قرب وجوار میں اس وقت دوعام شہری اور جنگلی حیات کاایک وارڈن موجود تھے،ان لوگوں نے فوراًپولیس کواطلاع دی،پولیس فوری طورپرموقع پرپہنچی اور اس نے پرندوں کی لاشیں قبضے میں لے لیں، جس کے بعدشہزادے سے ابتدائی تفتیش شروع ہوگئی،شہزادے نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہرکی لیکن پولیس نے اسے تفتیش کا حصہ بنالیا،یہ واقعہ دوسرے دن اخبارات کی شہ سرخی بن گیا،شاہی خاندان کاترجمان یہ اعلان کرنے پرمجبورہوگیا، اگر شہزادہ قصوروارثابت ہواتواس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی”برطانوی قانون میں اس پرندے کونقصان پہنچانے کی سزاچھ ماہ قیداورپانچ ہزارپائونڈجرمانہ ہے،برطانوی قانونی ماہرین نے قومی پریس کوبتایاکہ اگرشہزادے کے خلاف جرم ثابت ہوگیا تو اسے نہ صرف یہ سزابھگتناپڑے گی بلکہ اسے فوج سے بھی فارغ کردیاجائے گا۔پھر دنیا کے تمام باخبرمیڈیانے اس کاروائی کومانیٹر بھی کیااوربرطانیہ کی عدالتی کاروائی کوتحسین کے کلمات سے بھی نوازا۔
آپ پرنس ہیری کے خلاف چھپنے والی تمام رپورٹس کوآج بھی پڑھ لیں،ان میں چارچیزیں نمایاں ہیں،اوّل برطانیہ میں کوئی رکن اسمبلی،کوئی لارڈ، کوئی جرنیل اورشاہی خاندان کاکوئی فرد قانون سے بالاترنہیں،دوم عام شہری سے لیکر جنگلی حیات کے وارڈن تک برطانوی خاندان کے خلاف شکایت کرسکتا ہے اورپولیس تفتیش کیلئے شاہی محل میں بھی داخل ہوسکتی ہے،سوم برطانیہ کے شاہی خاندان کے چھوٹے سے چھوٹے جرائم بھی میڈیامیں آجاتے ہیں اور خاندان کا کوئی فردمیڈیاپراثراندازہونے کی کوشش نہیں کرتااورچہارم اگرشاہی خاندان کے کسی فردکے خلاف جرم ثابت ہوجائے توبرطانوی عدالتیں فیصلہ سناتے دیرنہیں لگاتیں اوراس فیصلے پرفوراًعمل درآمدہوتاہے۔میں برطانوی معاشرے کی ان خوبیوں کا مطالعہ کرتے ہوئےپاکستانی معاشرے کا جائزہ بھی لے رہاتھا۔
برطانیہ ہماراآقاتھا،وہ ہم پرڈیڑھ سوسال حکومت کرتارہاتھالیکن بعدازاں ہمیں محسوس ہواہم مسلمان ہیں اورمسلمان نظریات،خیالات اورروایات میں برطانیہ کے کافروں سے بہت آگے ہیں چنانچہ ہم نے1947ءمیں کافروں سے آزادی حاصل کرلی لیکن2007ءمیں ہمارے کافرآقاؤں کی اخلاقیات اورقانون پروری کایہ عالم دنیانے ملاحظہ کیاکہ وہاں دوپرندوں کے قتل پرنہ صرف پولیس شاہی شکارگاہ میں داخل ہوگئی بلکہ شہزادہ درجنوں مرتبہ شامل تفتیش رہااورشہزادہ میڈیا سے بھی منہ چھپاتارہاجبکہ ہم جیسے اہل ایمان کے ملک میں پی ایچ ڈی کی مشکوک ڈگری کے ساتھ وزارتِ قانون کا قلمدان سنبھالےوزیرقانون ایک مخصوص چارٹر طیارے کے ذریعے ملک بھرکی بارکونسلزمیں کروڑوں روپے بانٹ کرزرداری اوراب موجودہ حکومت کی خدمت سرانجام دےرہاہے،ایک مقدمے میں اسے تونیب نے بری کردیالیکن پرویزاشرف کوقابل تعزیرسمجھ کرریفرنس دائر کرنے کاحکم دے دیا۔
میں سوچ رہا تھا،ایک طرف”کافروں”کے شہزادے دوپرندے مارنے کے جرم میں قانون کے شکنجے میں آجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف اللہ کی محبوب ترین قوم کے حکمران خودکو قانون اورآئین سے بالاترثابت کردیتے ہیں،سننے میں آیاہے کہ پاکستان میں عدلیہ مکمل آزاد ہے، اب جج قانون کی حکمرانی کاحق اداکررہے ہیں لیکن اسی عدلیہ کےایک جج کی ویڈیونے تلاطم برپا کردیا۔آپ ہماری بدقسمتی دیکھئے،ہم اقتدارمیں رہتے ہوئے صرف ایک شخص کوبچانے کیلئے پاکستان کے تمام ادارے تباہ کردینے کی جارحانہ کوشش کرگزرتے ہیں،ہم قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیردیتے ہیں ۔میں نے بابا جی کوپرنس ہیری کاواقعہ سنایااورعرض کیا “قیامت کے دن یہ لوگ ہمارامنہ چڑائیں گے،ہم اللہ کے سامنے کیامنہ لے کرجائیں گے!”
ہمارے حکمرانوں کوکون بتائے دنیاکے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی ایک بڑی خصوصیت ہے مثلاً ہندومت عاجزی کامذہب ہے(بلاشبہ موجودہ ہندو قیادت اس سے کوسوں دورہے)،بودھ بے لوث ہوتے ہیں مگرروہنگیامیں انہوں نے خوداپنے ہاتھوں منہ پر کالک مل لی ہے اورعیسائیت قربانی اور یہودیت بالا دستی کا درس دیتی ہے جبکہ اسلام عدل کانام ہے،اگرہم اسلام سے عدل اور مسلمانوں سے انصاف نکال دیں توپیچھے سوکلوگرام گوشت کا ڈھیررہ جاتاہے لیکن آپ ہماری بد قسمتی دیکھئے آج یہودی، عیسائی ،بودھ کے پیروکارجانوروں تک سے انصاف کررہے ہیں،ان کے معاشروں میں ملکہ سے لیکرفریادی تک کویکساں حقوق حاصل ہیں،وہا ں دوپرندوں کی لاشیں بھی زنجیرعدل ہلادیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبوب قوم کے حکمران ہرروز انصاف،قانون اورعدل سے جوتے صاف کرتے ہیں،اگران کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے تواس کی دھجیاں اڑانے میں ایک لمحہ تاخیرنہیں کرتے۔
ذرادل پرہاتھ رکھ کربتائیے آج اگربرطانیہ کی عدالتیں شاہی خاندان کومحلات خالی کرنے کاحکم دیں توکیاملکہ کے پاس کوئی دوسراراستہ ہوگا؟اب آپ اللہ کے نام پربننے والے پاکستان کودیکھئے ہماری سپریم کورٹ کے احکامات کی کس قدرتحقیرہورہی ہے۔اس کے فیصلوں پر عمل درآمد کی بجائے دوسرے تاخیری حربوں سے کام لیکراپنے اقتدارکودوام دیاجاتاہے-ایک طرف وزیرِ قانون انصاف جب قانون کے ساتھ یہ کھلواڑ کررہے تھے، عین اس وقت ایوانِ اقتدارمیں مولانا طارق جمیل عدل وانصاف کے موضوع پرایک لیکچردے رہے تھے۔یقیناًمولانا جمیل نے گفتگواللہ کے نام سے شروع کرکے اللہ ہی کے نام پرختم کی ہوگی-