امریکا:اندرون خانہ چہرہ تاریک تر

:Share

امریکا کے تیسرے صدر اور اعلانِ آزادی کے خالق تھامس جیفرسن کےپاس نہ صرف یہ کہ قرآن کا نسخہ تھا بلکہ انہوں نے اسلام کو امریکی معاشرے کی تصویر کے ایک ممکنہ رنگ کے طور پر دیکھا اور مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش بھی کی۔تھامس جیفرسن نے مسلمانوں کو نئی ابھرتی ہوئی امریکی ریاست کے ممکنہ شہریوں کے روپ میں دیکھا۔ امریکا کا اعلانِ آزادی تحریر کرنے سے گیارہ سال قبل انہوں نے قرآن کا نسخہ خریدا تھا۔ تھامس جیفرسن کا قرآن کاوہ نسخہ آج بھی کانگریس کی لائبریری میں محفوظ ہے اور امریکیوں کے اجداد اوراسلام کے تعلقات کی علامت ہے۔ امریکی راست گو دانشوروں کیلئےیہ تعلقات آج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔
تھامس جیفرسن کے پاس قرآن کے نسخے کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات میں دلچسپی لیتے تھے مگر اس امر کی وضاحت نہیں ہوتی کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کا حل بھی چاہتے تھے۔تھامس جیفرسن نے بنیادی حقوق پر اسلامی تصور سے پہلی شناسائی سترہویں صدی کے انگریز فلسفی جان لاک کی تحریروں سے حاصل کی۔ جان لاک نے یورپی معاشروں پر زور دیا تھا کہ وہ مسلمانوں اور یہودیوں کو اپنے اندرسمونے کی کوشش کریں۔ جان لاک نے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کی تھی جنہوں نے یہ نکتہ ایک صدی قبل سمجھ لیا تھا۔ مسلمانوں کے حقوق سے متعلق تھامس جیفرسن کا تصور بحیرۂ اوقیانوس کے آرپار سولہویں سے انیسویں صدی عیسوی تک کے فکری ارتقا کی روشنی میں زیادہ آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
جب یورپ میں عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان لڑائی شروع ہوئی تب بہت سے عیسائیوںنے مسلمانوں کو اس امر کی نشانی کے طور پر آزمایا کہ نظریاتی معاملات میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حوالے سے تحمل اور رواداری کی حد کیا ہوسکتی ہے۔ یورپ میں قائم ہونے والی نظیروں کی بنیاد پر امریکا میں بھی مسلمان، ’’شہریت کی حدود اور رواداری‘‘ کے حوالے سے بحث کا موضوع بن گئے۔ نئی حکومت کی تیاریوں کے دوران جب امریکا کے بانیان نے (جو تمام کے تمام پروٹسٹنٹ تھے) مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو دی جانے والی مذہبی آزادی کے بارے میں غور کیا تو اس حوالے سے اسلامی دنیا میں پائی جانے والی نظیروں کے حوالے دیے۔ امریکا کی بانی نسل نے اس نکتے پر خصوصی بحث کی کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کو مذہبی اعتبار سے پروٹسٹنٹ ہونا چاہیے یا تمام مذاہب کے پیروکاروں کو کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ اس نکتے پر بھی پورے اہتمام سے بحث کی گئی کہ اگر تمام مذاہب کے پیروکاروں کو قبول ہی کرنا ہے تو کیا کسی بھی غیر پروٹسٹنٹ کو صدر کے منصب تک پہنچنے کی اجازت دی جانی چاہیے؟ اس سے انہیں مذہبی آزادی سے متعلق امور پر غور کرنے کی تحریک ملی۔ انہوںنے کئی باتیں سوچیں ۔ مثلاً یہ کہ کیا امریکا میں کوئی ایسی اسٹیبلشمنٹ قائم ہونی چاہیے، جو پروٹسٹنٹ فرقے کو تحفظ فراہم کرتی ہو۔ اس کا بنیادی مقصد مذہب کو ریاست سے الگ رکھنے کا انتظام یقینی بنانا تھا۔ساتھ ہی ساتھ آئین میں مذہب سے متعلق ٹیسٹ کا معاملہ بھی شامل کیا جانا تھا، جیسا کہ انیسویں صدی تک ریاستوں میں رہا۔
مسلمانوں کی شہریت کے خلاف مزاحمت کا تصور اٹھارہویں صدی تک حیرت انگیز نہ تھا۔ امریکیوں کو یورپ سے مذہب کے پیشوایانہ اور سیاسی کردار پر کم و بیش ایک ہزار سال کے منفی خیالات ترکے میں ملے تھے۔ مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے منفی تاثر کے باوجود یہ بات حیرت انگیز ہے کہ امریکا کے ابتدائی دور کی چند اہم ترین شخصیات نے اس تصور کو مسترد کردیا کہ مسلمانوںکو امریکا کے متوقع شہریوں کی حیثیت سے سوچا ہی نہ جائے۔ بانیانِ امریکا نے مسلمانوں کا ایسے شہریوں کے روپ میں تصور کیا جنہیں تمام حقوق میسر ہوں۔ مسلمانوں کے حقوق کے دفاع سے متعلق بانیانِ امریکا کا یہ حیرت انگیز موقف دراصل یورپ میں سیاسی فکر کے ہزار سالہ ارتقا کا منطقی نتیجہ اور اس کی توسیع کے مترادف
تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شدید مخالفت کی فضا میں بھی مسلمانوں کو تمام حقوق کے ساتھ شہری بنانے کا تصور امریکا میں کیوں کر محفوظ رہا؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اس تصور کا اکیسویں صدی میں مستقبل کیا ہے؟
یہ کتاب ہمیں امریکا کے قیام کے ابتدائی دور میں چند نمایاں شخصیات کے ان تصورات سے آگاہ کرتی ہے، جو وہ اسلام کے بارے میں رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام کے بارے میں پائی جانے والی منفی آرا کو جوں کا توں قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ یورپ نے انہیں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں برداشت کا رویہ نہ اپنانے کی غیر محسوس تعلیم دی تھی، مگر انہوں نے اس تعلیم کو قبول نہ کیا۔
امریکا کے بیشتر پروٹسٹنٹ باشندے یہ تصور رکھتے تھے کہ مسلمانوں کے خیالات کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے ایک طرف تو پروٹسٹنٹس میں “اسٹیٹس کو” کی راہ ہموار ہوئی اور دوسری طرف امریکا کے دیگر باشندے یہ سوچنے پر مائل ہوئے کہ دوسروں کی بات سننے میں کوئی ہرج نہیں۔ ایک طرف اگر مسلمانوں کو قبول نہ کرنے کی سوچ پروان چڑھی تودوسری طرف امریکیوں کی اکثریت نے یہ سوچناشروع کیاکہ دیگرمذاہب کے لوگوں کوبھی قبول کرناچاہیے تاکہ معاشرے میں امتیازی روّیہ نہ پایاجائے۔ اس صورت میں مسلمانوں کو بھی اپنانے کا شعور پیدا ہوا۔
یہ سب کچھ اس وقت سوچا جارہا تھا جب مسلمان ابھی امریکا میں آئے نہ تھے۔ ان کے آنے سے پہلے ہی انہیں قبول کرنے کی سوچ پروان چڑھائی جارہی تھی۔ تھامس جیفرسن اور ان کے قریبی رفقا بخوبی جانتے اور سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں سوچنے اور بحث کرنے سے امریکا میں حقوق کے حوالے سے آفاقیت کی راہ ہموار ہوگی۔ اور پھر یہ ہوا کہ امریکا میں اقلیتوں (کیتھولک عیسائی اور یہودی) کو قبول کرنے اور معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے فکر آگے بڑھی۔ مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بحث نے امریکا میں یہ تصور پیدا کیا کہ سب کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔
امریکا کو برطانیہ سے حقیقی آزادی ۱۷۸۳ء میں ملی۔ اس سال جارج واشنگٹن نے نیو یارک میں سکونت پذیر آئرش کیتھولک عیسائیوں کو خط لکھا۔ تب تک امریکا میں صرف ۲۵ ہزار کیتھولک عیسائی تھے، جن کے حقوق خاصے محدود تھے۔ انہیں نیو یارک میں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت بھی نہیں دی گئی تھی۔ جارج واشنگٹن نے اس نکتے پر زور دیا کہ امریکا کو ہر مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو قبول کرنا چاہیے جن پرمظالم ڈھائے گئے ہوں اورجنہیں مستقل دباؤ میں رکھا گیا ہو۔ انہوں نے یہودیوں کو بھی خط لکھا۔ تب تک امریکا میں صرف دو ہزار یہودی تھے۔ جارج واشنگٹن چاہتے تھے کہ امریکی سرزمین پر دنیا بھر کے کچلے ہوئے لوگوں، بالخصوص مذہب کے نام پر نشانہ بنائے جانے والوں کو پناہ ملے۔
۱۷۸۴ء میں جارج واشنگٹن نے ماؤنٹ ورنن کے مقام پر اپنے گھر پر مسلمانوں کے حوالے سے اپنے خیالات کوپوری طرح کھول کررکھ دیا۔ورجینیا سے کسی دوست نے جارج واشنگٹن کو لکھا کہ اسے اپنا گھر بنانے کیلئے ایک بڑھئی اور ایک مستری (معمار) کی ضرورت ہے۔ جارج واشنگٹن نے اسے لکھا کہ کسی بھی مکان کی تعمیر یا فرنیچر کی تیاری میں اس امر کی کوئی اہمیت نہیں کہ کاریگر کس مذہب، فرقے، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اچھا کاریگر ایشیا، افریقا یا یورپ کا ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ مسلمان، عیسائی یا یہودی ہو۔ یا پھر یہ کہ وہ کسی مذہب پر یقین ہی نہ رکھتا ہو۔ اس خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ جارج واشنگٹن کے فکری دھاروں میں مسلمان بھی بہتے تھے۔ انہوں نے ’’امریکا سب کیلئے‘‘ کے تصور میں مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کیا تھا۔ ہوسکتا ہے جارج واشنگٹن کو اندازہ ہو کہ کسی بھی شعبے میں کوئی کردار ادا کرنے کیلئے ابھی بہت دنوں تک مسلمان نمودار نہیں ہوں گے۔
مختلف ذرائع سے معلوم ہوتاہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں بھی امریکا میں مسلمان سکونت پذیر تھے مگر تھامس جیفرسن اور ان کے ساتھیوں کو
بہر حال ان کے بارے میں معلوم نہیں ہوسکا تھا۔ تھامس جیفرسن اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کو مستقبل کے امریکی شہری تصور کرتے ہوئے ان کا ذکر کیا تھا۔ جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن کی تحریروں اور تقاریر میں مسلمانوں کا ذکر بلا سبب ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہ دونوں عظیم شخصیات مسلمانوں کے حوالے سے پائے جانے والے دو متضاد یورپی رویوں اور تصورات کی وارث تھیں۔
ایک تصور یہ تھا کہ اسلام کی تعلیمات پروٹسٹنٹ عیسائیت کی تعلیمات کے یکسر منافی بلکہ اس سے متصادم ہیں اور یہ کہ جابرانہ حکومتوں کے قیام میں بھی اسلامی نظریات نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مسلمانوں کو امریکا کے پروٹسٹنٹ معاشرے میں قبول کرنے کا مطلب ایک ایسی برادری کو قبول کرنا تھا جس کے مذہب اور اس سے متعلق تصورات کو یورپ نے غلط، اجنبی اور خطرناک قرار دیاتھا۔ معاملہ مسلمانوں تک محدودنہ تھا۔ امریکی پروٹسٹنٹ توکیتھولک عیسائیوں کے نظریات کو بھی اِسی طرح اجنبی اور خطرناک قرار دیتے تھے۔ کیتھولسزم کو بھی آزادی کے امریکی تصورات اوروسیع النظری کامخالف سمجھاجاتاتھا۔
جیفرسن اورنان پروٹسٹنٹ شہریت کی حامی دیگرشخصیات نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ ایک اورفکری دھارے کوپروان چڑھانے میں معاونت کی، جس کے ذریعے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کیتھولک عیسائیوں اور یہودیوں کو قبول کرنے کی راہ بھی ہموارہوتی تھی۔ سولہویں صدی کے جن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں نے اپنے اپنے نظریات کی تبلیغ کی تھی، انہوں نے ان کیلئے جان بھی دی تھی۔ سترہویں صدی عیسوی میں یورپ کے جن لوگوں نے تمام مذاہب کو قبول کرنے اور تمام ثقافتوں اور نسلوں کے لوگوں کو اپنے ہاں قابل قبول قرار دینے کی بات کی تھی انہیں سزائے موت یا پھر قیدِ بامشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بہتوں کو ان نظریات کی بنیاد پر ملک سے نکال دیا گیا۔ اس معاملے میں امیر و غریب اور بے کس و طاقتور کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ اشرافیہ میں سے بھی جن لوگوں نے تمام مذاہب کے لوگوں کواپنانے کی بات کی،انہیں شدید مخالفت اور ایذاؤں کاسامنا کرناپڑا۔ یورپ میں رومن کیتھولک چرچ سے متصادم نظریات رکھنے والے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کسان تھے، سیاسیات سمیت مختلف علوم کے ماہرین تھے یا پھر اوّل اوّل انگریزبیپٹسٹ۔ ان میں کوئی بھی سیاسی قوت رکھنے والایااعلیٰ معاشرتی حیثیت کاحامل شخص نہ تھا۔مذہب کے لگے بندھے نظریات سے ہم آہنگی نہ رکھنے والے اگرچہ منظم نہ تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے منظم فکر رکھنے والے مسلمانوں کوعیسائی
ریاستوں میں ایذاؤں سے بچانے کیلئے خاصی وقیع جدوجہد کی۔
اٹھارہویں صدی کی اینگلیکن اسٹیبلشمنٹ کے رکن اور ورجینیا کے ایک اعلیٰ سیاست دان کی حیثیت سے تھامس جیفرسن نے وہ تصورات پیش کیے، جو اس سے قبل یورپ میں اپنے پیش کرنے والوں پر شدید لعن طعن کا سبب بنے تھے اور بہتوں کو تو سزائے موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ تھامس جیفرسن چونکہ خود اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے مسلمانوں کے حقوق سے متعلق ان کا موقف ورجینیا میں پوری توجہ سے سنا گیا۔ چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر تھامس جیفرسن نے نوزائیدہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں وہ تصورات پیش کیے، جو اس سے قبل یورپ کے مرکزی دھارے سے بہت دور جوہڑ کی شکل میں اپنی وقعت کھو بیٹھے تھے ۔ ایسا نہیں ہے کہ تھامس جیفرسن نے تمام مذاہب کے لوگوں کو قبول کرنے اور ہرمذہب کے پیروکاروں کے حقوق کوسرکاری مداخلت سے مُبرّارکھنے کا تصور پیش کیااوران پرمبارک باد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ مخالفین نے ہرقدم پران کیلئے مشکلات پیداکرنے کی کوشش کی مگریہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے حلقوں میں جیفرسن کوغیرمعمولی وقعت ملی۔ پریسبائٹیرینزاوربیپٹسٹس سمیت بہت سی ایسی برادریوں نے جیفرسن کی بات پرمسرت کااظہارکیاجوپروٹسٹنٹس کی جانب سے جبر کا سامنا کرتے رہے تھے۔ ویسے تو خیر امریکی معاشرے کا کوئی بھی طبقہ غیر پروٹسٹنٹس کو جامع امریکی شہریت دینے کے حق میں نہ تھا، مگر پھر بھی مسلمانوں کیلئے ان کے دلوں میں نرم گوشہ ضرور تھا۔
مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بحث شروع کرنے والے جو کچھ کہہ رہے تھے، وہ اٹھارہویں صدی کے معاشرے میں محض فکری یا نظری سطح پر بھی خاصا اجنبی اور ناقابل قبول تھا۔ تب تک امریکی شہریت کاحقداروہی سمجھا جاتا تھاجو پروٹسٹنٹ، سفید فام اورمردہو۔شہریت کے معاملے کومذہب سے الگ کرنالازم تھا۔ورجینیا میں اس حوالے سے قانون سازی تو ایک بڑے سفر کی محض ابتدا تھی۔ تھامس جیفرسن، جارج واشنگٹن اورجیمز میڈیسن نے شہریت کے معاملے کومذہب سے الگ کرنے کا عمل شروع کیاتھا۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔انہوں نے اپنی سیاسی کیریئر کے دوران اس آدرش کے حصول کیلئے غیرمعمولی محنت کی مگرمکمل کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ وہ اپنا ادھوراکام بعدمیں آنے والوں کیلئے فریضے کے طور پرچھوڑگئے۔ یہ کتاب پہلی باراس امرپر بحث کرتی ہے کہ کس طورجیفرسن اور ان کے ساتھی،اسلام کے بارے میں اپنے نامکمل اورمبہم تصورات کے باوجود، مسلمانوں سمیت تمام نان پروٹسٹنٹ افراد کے شہری حقوق کیلئے متحرک رہے۔
جارج واشنگٹن نے جب۱۷۸۴ء میں مسلمانوں کومحنت کشوں کی حیثیت سے امریکا آنے کی اجازت دینے کی وکالت کی، اس سے ایک عشرہ قبل انہوں نے اپنی محصول پذیر املاک میں افریقی نسل کی دو عورتوں کا ذکر بھی کیا تھا، جو ماں بیٹی تھیں۔ ایک کا نام فاطمہ اور دوسری کا فاطمۂ صغیرہ تھا۔ جارج واشنگٹن نے مسلمانوں کو امریکی شہریت دینے کی وکالت کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو غلام کی حیثیت سے خرید کر اُنہوں نے خود ہی ان کے بنیادی حقوق کی راہ مسدود کی تھی۔ واضح رہے کہ تب تک غلام مسلمانوں کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ہوسکتا ہے کہ جیفرسن اور میڈیسن کی جاگیروں اور زرعی اراضی پر بھی یہی حقیقت پائی گئی ہو۔ مگر خیر، ان کے غلاموں کے مذہب کے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں مغربی افریقا سے محنت کشوں کے طور پر لائے گئے مسلم غلاموں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ یہ تعداد امریکا میں آباد کیتھولک عیسائیوں اور یہودیوں سے کہیں زیادہ رہی ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے سابق مسلم غلاموں نے کانٹی نینٹل آرمی میں بھی خدمات انجام دی ہوں۔ مگر خیر، اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ اپنے مذہب پر کاربند رہے ہوں اور یہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا ہے کہ امریکا کے بانیوں کو ان کی موجودگی کا علم تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں کے شہری یا شہریتی حقوق سے متعلق بحث پر یہ سابق مسلم غلام اثر انداز نہیں ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا میں مسلمان (پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرح) سترہویں صدی سے موجودتھے مگرنسل اورغلامی کے عوامل اس قدرمضبوط تھے کہ ان کے مذہب کا معاملہ سات پردوں میں لپٹارہا۔ امریکا کے بانیان نے جب مستقبل کے امریکی مسلمانوں کے حقوق کا سوچا تھا تو ان کے ذہن میں سفید فام مسلم ہی رہے ہوں گے کیونکہ ۱۷۹۰ء کے عشرے تک کسی بھی نسل یا مذہبی پس منظر کا حامل سفید فام شخص امریکا میں شہریت کیلئے درخواست دے سکتا تھا۔ جیفرسن نے صرف دومسلمانوں سے ملاقات کی تھی اوروہ دونوں ترک نسل کے شمالی افریقی سفیرتھے۔ جیفرسن نے ان کی رنگت کے بارے میں کچھ کہا، نہ لکھا۔ دونوں بہت حد تک سفید فام تھے۔ ان دونوں میں رنگ یا مذہب کے اعتبار سے جیفرسن کیلئے کوئی کشش نہ تھی۔ اس نے ان دونوں سے ملاقات کی اور انہیں اہمیت دی تو اس کا سبب صرف یہ تھا کہ وہ سیاسی و سفارتی اعتبار سے بہت مضبوط تھے۔ اس سے قبل تھامس جیفرسن نے سفیر، وزیر خارجہ اور نائب صدر کی حیثیت سے شمالی افریقا کی ریاستوں سے امریکا کے تنازع کو مذہب کے نقطۂ نظرسے کبھی نہیں دیکھا۔ بحیرۂ روم اورمشرقی بحراوقیانوس امریکی جہازرانی کو قزاقوں سے ہر وقت خطرہ رہتا تھا۔ جیفرسن نے ٹریپولی اور تیونس کے حکمرانوں پرواضح کیاکہ ان کاملک اسلام مخالف جذبات یاتعصب نہیں رکھتا اور ایک مرحلے پرتووہ یہاں تک گئے کہ انہوں نے دونوں حکمرانوں سے کہا کہ ہم بھی اُسی خداکی عبادت کرتے ہیں،جس کے عبادت گزارآپ ہیں!
جیفرسن مذہب کو سیاست یاحکومت سے الگ رکھناچاہتے تھے۔ انہوں نے بیرون ملک جن خیالات کورواج دیا، ملک میں اُنہی خیالات کواہمیت دی۔ اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے جیفرسن کے تصورات بنیادی طور پر شمالی افریقا کی ریاستوں سے تعلق کی بنیاد پر پروان چڑھے ہوں گے۔ یہی شمالی افریقا سے متعلق ان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی تھے۔ یہ نکتہ بھی بھلایا نہیں جاسکتا کہ جیفرسن نے ذاتی طور پر موحد ہونے کی بنیاد پر اسلامی دنیا سے اپنے تعلق کو زیادہ اہمیت دی ہوگی۔
جیفرسن کے زمانے تک اسلام کے بارے میں بہت سے منفی تاثرات اور تصورات بھی پائے جاتے تھے اور یقینی طور پر وہ ان سے پوری طرح محفوظ یا لاتعلق تو نہیں رہے ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ اسلام اور اسلامی دنیا سے متعلق یورپ سے ترکے میں ملنے والے چند تصورات اور مثالوں کو انہوں نے ورجینیا میں مذہب کو ریاستی یا حکومتی امور سے الگ رکھنے کی بحث میں مضبوط بنیاد کے طور پر استعمال کیا ہو۔جیفرسن نے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں اصول اور تعصب کی جس جنگ میں فتح پائی تھی، وہ اب بھی، اکیسویں صدی میں، بحران کی صورت امریکیوں کے سامنے کھڑی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک امریکا میں مسلمانوں کی تعداد نمایاں رفتار سے بڑھی ہے اور اب امریکا میں آباد مسلمان نسلی تنوع اور تحرک سے متصف ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا میں مسلمانوں کو کبھی کھلے دل سے قبول نہیں کیاگیا۔جیفرسن کے زمانے میں مسلمانوں کی ایک تصوراتی آبادی کو تعصب کا نشانہ بنایاجاتاتھا۔آج کے امریکامیں ان مسلمانوں پرسیاسی حملے ہورہے ہیں، جوایک حقیقت کی حیثیت سے امریکی معاشرے کاحصہ ہیں۔ نائن الیون کے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرامریکا میں مسلمانوں کے خلاف ایسی فضاتیار کردی گئی ہے، جس میں سبھی اس بات کے حق میں دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمانوں کوان کے تمام بنیادی وشہری حقوق نہ دیے جائیں۔
اب امریکا میں یہ بحث بھی زورپکڑگئی ہے کہ کوئی مسلمان امریکی صدربننے کی اہلیت رکھتاہے یانہیں۔ بارک اوباما کے حوالے سے یہی سوال اٹھاتھامگریہ سوال نیا نہیں۔ امریکی سیاسی تاریخ میں جیفرسن پہلی شخصیت تھے جن پر مسلمان ہونے کاالزام بھی عائدکیا گیا۔ کوئی امریکی مسلمان صدربن سکتاہے یا نہیں،یااسے صدربننے دیناچاہیے یا نہیں۔ اِس نکتے پر بحث سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں بھی مدد ملتی ہے کہ امریکی شعورِعامہ میں مسلمان کس طورداخل ہوچکا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے حقوق کس طرح ابتدائی مرحلے میں قومی آدرش کی حیثیت اختیارکرگئے تھے۔ یوں آج کے امریکامیں مسلمانوں کی شہریت کے مسئلے کو سمجھنے کیلئے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کے حقوق سے متعلق چھڑنے والی بحث کو سمجھنا لازم ہے۔
امریکی مسلمانوں کے حقوق نے نظری سطح پرتو بہت پہلے قبولیت پالی مگر عملی دنیا میں انہیں سخت آزمائش سے گزرنا پڑاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی مسلمانوں کو حقوق کے حوالے سے یومیہ بنیاد پر آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج کے امریکا میں اسلام کے معروف مورخ جان ایسپوزیٹو کو بھی مجبور ہو کر کہناپڑاہے کہ’’امریکی مسلمان یہ سوچنے پرمجبورہوگئے ہیں کہ مغربی”وسیع النظری اوررواداری یعنی کلیت پسندی کی حدود کیا ہیں؟‘‘ہمیں تھامس جیفرسن
کا قرآن‘‘ کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے کہ مسلمانوں کے حقوق کو امریکی آدرشوں کا حصہ کب، کہاں اور کس طرح بنایا گیا۔
مؤرخین نے اب تک یہ ثابت کرنے پر توانائی صرف کی ہے کہ مسلمان مکمل طور پر امریکی آدرشوں کے خلاف ہیں۔ اور یہی لوگ اس نکتے پر بھی زور دیتے ہیں کہ پروٹسٹنٹ امریکیوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو فطری طور پر غیر امریکی قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ بعض مؤرخین نے تو بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ امریکا دراصل اٹھارہویں صدی میں اسلام کی شدید مخالفت اوراس کے جابرانہ طرزِحکومت کے مآخذ کے خلاف ردعمل کے نتیجے میں معرضِ وجودمیں آیاتھا۔ یہ بھی ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ امریکاکی ابتدائی پالیسیوں اور حکمتِ عملی سے متعلق دستاویزات میں اس حوالے سے بہت کچھ مل بھی جاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نمایاں حد تک مثبت تصورات بھی ملتے ہیں، جیسا کہ ’’مستقبل کے امریکی مسلم شہریوں کے حقوق‘‘ سے متعلق بحث ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تمام پروٹسٹنٹس نے اسلام کو یکسر اجنبی مذہب کی حیثیت سے نہیں دیکھا تھا۔
یہ کتاب اس نکتے پر روشنی ڈالتی ہے کہ مسلمان نہ صرف یہ کہ غیر امریکی نہیں تھے بلکہ ملک کے قیام کے وقت ہی سے ان کی ممکنہ شہریت اور متوقع حقوق پر بحث بھی ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے بہت سے آئیڈیلز کو اس وقت کے امریکیوں کی اکثریت نے کھلے دل سے قبول نہیں کیا تھا۔ اسلام اور اسلامی دنیا کے حوالے سے جیفرسن کے نظریات کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب جان ایڈمز اور جیمز میڈیسن کے خیالات کو بھی عمدگی سے بیان کرتی ہے۔ مسلمانوں کے حقوق کی بحث ملک کے بانیان تک محدود نہ تھی۔ ورجینیا میں بیپٹسٹ اور پریسبائٹیرینز کی جدوجہد اور مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کی معرکہ آرائی کا احوال بھی اس کتاب میں ہے اور کلیسائے انگلستان سے تعلق رکھنے والے مشہور وکیل جیمز آئرڈیل اور سیموئل جانسٹن کا مسلمانوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا بھی اسی کتاب سے ثابت ہے۔ ایونجیلیکل بیپٹسٹ جان لیلینڈ نے، جو جیفرسن اور میڈیسن کے ساتھیوں میں سے تھے، مسلمانوں کے حقوق کیلئے کنیکٹیکٹ اور میساچوسیٹس میں آواز اٹھائی۔ ساتھ ہی انہوں نے آئین میں پائی جانے والی خامیوں، پہلی آئینی ترمیم کے نقائص اور ریاستی سطح پر مذہب کے کردار کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
اس کتاب میں مغربی افریقا سے تعلق رکھنے والے دو مسلم غلاموں ابراہیم عبدالرحمن اور عمر ابن سعید کا تذکرہ ملتا ہے۔ عمر ابن سعید عربی جانتا تھا اور اس نے عربی میں آپ بیتی بھی لکھی تھی۔ ان دو مسلمانوں کے تذکرے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت امریکا میں ہزاروں مسلمان تھے مگر انہیں مذہب پرکاربندرہنے سمیت بہت سے حقوق حاصل نہ تھے۔ انہیں شہریت کے حق سے بھی محروم رکھاگیاتھا۔کیتھولک عیسائیوں اوریہودیوں نے بیسویں صدی میں بھی اپنے حقوق کیلئے جدوجہد جاری رکھی۔ انہیں جو حقوق ملے وہ آئین سے مکمل ہم آہنگ نہ تھے۔ یہ حقیقت البتہ انتہائی تلخ ہے کہ آج بھی امریکا میں مسلمان واحد برادری ہے جسے مکمل طورپرقبول نہیں کیاگیااورآج بھی اس کے اثرات کادائرہ محدودرکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ کے حالیہ فیصلے یروشلم کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کرنے کے بعداب توکسی شک وشبہ کی گنجائش بھی باقی نہیں رہی کہ صرف امریکامیں ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے خلاف اس نے کھلااعلان جنگ کردیاہے۔اب دیکھنایہ ہے کہ کیاعالم اسلام خاموش رہ کر اپنی خودکشی کامرتکب ہوتاہے یاپھراپنی تقدیر کو پھر سے سنوارنے کے موقع سے فائدہ اٹھاتاہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں