دنیاتیسری عالمی جنگ کے دہانے پر

:Share

دہشتگردی کے نام پرامریکی جارحیت اب تک کئی مسلمان ممالک کوتاراج کرچکاہے لیکن افغانستان میں لوہے کے چنے چبانااب اس کے بس میں نہیں رہا۔پاکستان نے اپنی سرزمین پر ضربِ عضب اورردّالفسادجیسے آپریشن میں اپنی جانوں کی لازوال قربانیوں کے بعدامریکا، بھارت اوراسرائیل کے پروردہ دہشتگردوں کابڑی بہادری سے صفایا کیاہے ۔پاکستان نے واضح طورپراس بات کااعلان کیاکہ اب پاکستان کی سرزمین پرکسی اورکی جنگ لڑنے کی اجازت نہیں ہو گی جس پرقصرسفید کا فرعون اپنی ناکامی اور ہزیمت پرپاکستان کے خلاف اب کھل کر سامنے آگیاہے اوراپنی شکست فاش کاساراملبہ پاکستان پرڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ ۔یہی وجہ ہے کہ نئے سال کی پہلی صبح کو قصرسفیدکے فرعون ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنے ٹویٹ میں خبث باطن کااظہارکرتے ہوئے لکھا: ”امریکانے پاکستان کوآخری پندرہ برسوں میں۳۳/ارب ڈالر کی امداد دی ہے جس کے بدلے پاکستان نے امریکاکودھوکے اور جھوٹ کے سواکچھ نہیں دیا۔پاکستان نے دہشت گردوں کوپناہ دے رکھی ہے”۔
ٹرمپ کابیانیہ انتہائی آسان الفاظ پرمبنی ہے لیکن ایک لفظ ”دہشتگردی”جواسم فاعل کے صیغے کے ساتھ استعمال ہواہے، انتہائی مبہم اورغیرواضح ہے۔ دہشت گردی کیاہے؟آج کی دنیامیں سب سے زیادہ استعمال ہونے والالفظ دہشتگردی ہے۔ انٹرنیٹ انسائیکلوپیڈیابتاتاہے کہ دنیاکی تمام زبانوں میں آج سب سے زیادہ لکھا، پڑھااوربولاجاناوالالفظ ہے جو کرۂ ارض کی ہرزبان میں ترجمے کی صورت میں گردش کررہاہے۔اخبارات،ریڈیو،ٹی وی ہرجگہ آپ کواس لفظ کاسامناکرناپڑے گا۔ یہ لفظ ہماری سماجی زندگی کی گفتگومیں بری طرح دخیل ہے۔دنیابھرکے اسکولوں،کالجوں میں یہ ہر طالب علم کی زبان پرہے۔اساتذہ،صحافیوں،دانشوروں کی گفتگوکامحوریہی لفظ دہشتگردی ہے۔انٹرنیٹ کی دنیامیں داخل ہوتے ہی آپ کا سامنااس لفظ سے ہوتاہے۔آج یہ لفظ دہشتگردی بغیرکسی ٹھوس وضاحت اور تعریف کے عالمی طاقتوروں کی اجارہ داری کی نذرہوگیاہے۔کوئی ایک بھی ملک ،تنظیم ،گروہ یابااثرشخصیت اپنے ملک کوبین الاقوامی سطح پرذلیل کرکے اپنا ضمیربیچ کراپنی عزت نیلام کرکے اپنے ہی شہریوں کی نظرمیں اپنے آپ کو رسواکرکے اگرعالمی طاقتوں کے مفادات کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگاتاہے تواس ملک اورگروہ کے جنگجوحریت پسندکہلاتے ہیں اور اعلیٰ عہدیداروں کو نوبل پرائزاورامن ایوارڈ دیئے جاتے ہیں اورخراج تحسین پیش کیاجاتاہے لیکن اگرکسی کامردہ ضمیر بیدارہوجاتاہے اور اپنے ملک کوترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے منصوبے میں شامل ہونے کیلئے منصوبہ بندی اوردیگراقوام عالم سے معاہدے کئے جاتے ہیں ،خیرات کا کشکول توڑکرمعیشت کومستحکم کرنے کاارادہ کیاجاتاہے ،ملک کودہشتگردی سے پاک کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں،خوداپنے پاؤں پر کھڑاہونے کی کوشش کی جاتی ہے ،اپنے ملک کی انفرادی اوراجتماعی مفادات کو عالمی طاقتوں کی چاپلوسی پرترجیح دی جاتی ہے تووہی لوگ جوپہلے عالمی طاقتوں کی نظرمیں حریت پسند کہلاتے تھے،وہی دہشتگرد، جھوٹے اوردھوکے بازکہلاتے ہیں۔
پاکستان ہی کی مثال لے لیجئے ،برسوں سے امریکی جنگ کواپنی جنگ سمجھ کرفرنٹ لائن اتحادی کارول اداکیاجس سے ہمارا اپناملک دہشتگردی کی زد میں آگیا۔اب پاکستان نے افغانستان میں امریکاکی جنگ میں تعاون سے معذرت کرلی توامریکا اوچھے ہتھکنڈوں پراترآیااوراب برسلزمیں اپنے اتحادیوں کے تعاون سے پاکستان کو دہشت گردوں کی معاونت کرنے والا ملک قراردینے کی کوشش کی جس میں ناکام ہوگیا۔
آج کی دنیامیں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس”کے مصداق کام چلانے کی کوششیں توبدستورجاری ہیں لیکن اب بھی کچھ تواناآوازیں ان قوتوں کےخلاف سینہ سپر ہیں۔آج اہل دانش و سیاست سمیت عام آدمی بھی محسوس کررہاہے کہ عالمی سطح پرطاقت کاتوازن بگڑرہاہے اوراب حالات جوں کے توں نہیں رہ سکیں گے۔اس کاسبب یہ ہے کہ ایک عالمی طاقت چین کے ابھرنے کوواحدسپرپاورہونے کازعم رکھنے والاامریکااوراس کے اتحادی عالمی بالادستی کے اپنے خواب کوملیامیٹ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ اکتوبرمیں چین کی کیمونسٹ پارٹی کی۱۹ویں کانگرس میں چینی صدرزی چن پنگ نے پہلی بار عالمی سطح پرچین کے اہم کردارکااعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ چین اب دولت منداوردفاعی لحاظ سے مضبوط ہوچکاہے اور انسانیت کیلئے سب سے بڑھ کرخدمات انجام دے رہاہے اوراس حوالے سے مرکزی حیثیت کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔
اس کے برعکس جنوری۲۰۱۸ءمیں اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی صدرٹرمپ نے چین کوامریکی تہذیب کیلئے خطرہ قراردیا۔ حالات کو جوں کاتوں نہ رکھنے کا لازمی نتیجہ بڑی جنگ پرمنتج ہوتاہے۔گزشتہ پانچ صدیوں میں اس طرح کے حالات ۱۶مرتبہ پیداہوئے جس کے نتیجے میں۱۲ عالمی جنگیں ہوئیں،اس لئے چین اور امریکاکے ٹکراؤ کے۸۰فیصدامکانات ہیں۔ چین اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کے زعم میں اورامریکااپنے خوف میں ایسے اقدامات اورپالیسیاں بنا رہے ہیں اورایسے جال میں پھنستے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ ناگزیر بن سکتی ہے اوربڑے ممالک کے تزویراتی اندازوں کی غلطیاں بتدریج انہیں جنگ کے ٹریپ میں لیجارہی ہیں تاہم چین اقتصادی جنگ کوفوجی تصادم میں تبدیل ہونے سے گریز کی پالیسی پرقائم ہے لیکن امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنی فطرت میں جنگجوہے اوروہ کبھی نہیں چاہے گی کہ چین اس حدتک دنیاپرکنٹرول حاصل کر لے کہ بعدمیں اس سے جنگ بھی نہ کی جا سکے ۔چین کوبھی امریکیوں کی اس نفسیات کا بخوبی علم ہے ،اس لئے وہ اپنی فوج کوبھی مسلسل مضبوط اورمستحکم بنا رہا ہے۔
چین ،بھارت سے آسٹریلیاتک چین مخالف اتحادبنانے کی امریکی مہم جوئی سے اورچین کے اردگردفوجی اڈوں اورنیوکلیر پروگرام کی اپ ڈیٹنگ سے بھی بخوبی آگاہ ہے اورجواباً چین اورروس نےنیو کلیئر پروگرام کوجدیدخطوط پر استوارکرنے کے ساتھ ساتھ امریکی اتحادیوں کوحدمیں رکھنے کیلئے علاقائی اتحادقائم کرنے پربھی توجہ مرکوز کررکھی ہے جس میں چین ، روس ایران و پاکستان ہوسکتے ہیں لیکن اس وقت ایران کی بھارت سے بڑھتی ہوئی قربت سے یہ تاثربھی نمایاں نظرآرہا ہے کہ ایران مستقبل میں عالمی طاقتوں سے اپنی حیثیت منوانے کی کوشش میں سرگرداں ہے تاکہ اس کی آڑمیں مغرب او ر امریکا سے اپنے ایٹمی پروگرام کے معاہدے میں مزیدرعائتیں حاصل کرسکے اورمشرق وسطیٰ میں درپردہ امریکی حمائت حاصل کر سکے جس کی واضح تصویرہمیں عراق ،شام اورلبنان سے لیکریمن تک ایرانی کردار پر امریکااوراس کے اتحادیوں کی خاموشی ہے اوراسی شہ پرایران نے عرب ممالک کودہمکانے کیلئے یہ دعویٰ کیاتھاکہ اس وقت ایران سے لیکر یمن تک کی پٹی پرایران کی پالیسی پر عمل درآمدہوگا لیکن اس کے باوجود کہ یہ رابطہ گروپ ایران کی اس پالیسی کوبخوبی سمجھتاہے لیکن مزیدفاصلوں اوردوری کوختم کرنے کیلئے خاموش سفارتکاری پرعمل درآمدجاری ہے۔
دوسری طرف شمالی کوریااورجنوبی کوریاروایتی دشمنی ختم کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔گزشتہ دوماہ سے چین اور افغانستان اپنی سرحدکے ساتھ ساتھ ایک فوجی اڈے کے قیام پر بات چیت کررہے ہیں،اس سلسلے میں چین نے مالی وسائل اورسازوسامان کی فراہمی اورافغان فوجیوں کی تربیت کے وعدے بھی کئے ہیں۔ یہ فوجی اڈہ شمالی مشرقی افغانستان کے پہاڑی سلسلے واقع ”واخان”پٹی میں قائم کیاجائے گاجوچینی سرحدسے متصل ہے اور پاکستان کوتاجکستان سے جدا کرتی ہے۔بظاہریہ سب کچھ چین کی دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ کے تناظرمیں کر رہاہے تاکہ ایسٹ ترکمنستان موومنٹ کے جنگجوؤں کی کاروائیوں کوختم کیاجا سکے۔چین کے خیال میں یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان دہشتگردوں سےسی پیک منصوبہ اور افغانستان کی معدنیات وکان کنی میں چین کی سرمایہ کاری متاثرہوسکتی ہے اورچین کی حکمت عملی متاثرہو سکتی ہے۔
روس اورچین کی حکمت عملی میں قدرے یکسانیت پائی جاتی ہے۔روس اورچین اس چارملکی رابطہ گروپ کے سرگرم رکن ہیں جو افغان حکومت اورطالبان میں امن معاہدہ کرانا چاہتے ہیں ۔چین نے حال ہی میں کابل میں نئے سفیر لیوجن سانگ کاتقررکیاہے جو۲۰۱۵ء تک”بیلٹ اینڈروڈ”پروگرام کے پندرہ ارب ڈالر کے سلک روڈکے ڈائریکٹررہ چکے ہیں۔چین اورپاکستان نے مشترکہ طورپر افغانستان کوسی پیک کوکابل تک توسیع دینے کی نہ صرف بارہاخواہش کی ہے بلکہ اس سلسلے میں چین نے ٹھوس ضمانتیں بھی مہیاکرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔اس پیشکش میں جس کے تحت پشاور کابل شاہراہ اورٹرانس افغان بائی وے کی ازسرنوتعمیراورکشادہ کیاجائے گاتاکہ پاکستان اورافغانستان کو وسطی ایشیاسے منسلک کیاجا سکے۔ روس ،چین ایک طرف اورامریکااوراس کے اتحادی دوسری طرف اپنی اپنی حکمت عملیوں میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں، یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گا تاہم تیسری عالمگیرجنگ کے امکانات کوسرے سے مستردنہیں کیاجا سکتا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں