پاکستان کی غیبی امداد

:Share

افغانستان میں مسلسل ہزیمت اورشکست کے بعدجارح شکاری نئے جال میدان میں لیکراترے ہیں۔ کابل میں ملک بھرسے آئے ہوئے2100 سرکاری علمائے دین کی کانفرنس پر خودکش حملے میں کم ازکم دس علماء سمیت بیس افرادجاں بحق اوردودرجن سے زائدشدیدزخمی ہوگئے ہیں۔اس خود کش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے جبکہ طالبان نے نہ صرف لاتعلقی بلکہ مذمتی بیان جاری کیاہے۔کابل میں سرکاری علماء کے اجتماع سے کچھ ہی دورایک مارکیٹ میں نصب بم پھٹنے سے ہونے والے دہماکے میں بھی چندافرادزخمی ہوگئے۔پاکستان اورایران نے کابل میں علماء پرہونے والے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔سرکاری علماء کانفرنس نے طالبان سمیت کسی تنظیم کانام لئے بغیرہرقسم کے خودکش حملوں اورغنی حکومت کے خلاف”جنگ”کو شرعاً قراردینے کافتویٰ جاری کردیاہے تاہم افغان علاقوں پرامریکاکی فضائی بمباری اوررات کے چھاپوں کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ غیرملکی فوج سے انخلاء اورطالبان سے غنی حکومت سے مزاکرات کی اپیل کی اوراس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اورپاکستان سمیت دنیابھرکے علماء سے افغان جنگ کے خاتمے میں کرداراور اپنی حمائت کی بھی درخواست کی ہے۔
افغان دفاعی وسیاسی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ سرکاری علماء کانفرنس جاری جنگ ختم کرانے کیلئے ایک نمائشی قدم ہے اورسرکاری علماء کے اس فتوے کاطالبان اوردنیابھرکے دیگرعلماء پرقطعی کوئی اثرنہیں ہوگاکیونکہ دنیابھرکےعلماءکی اکثریت افغان طالبان کی عسکری جدوجہد کوغیرملکی جارح امریکی فوج کے خلاف اسی طرح جائزاورجہادسمجھتی ہے جس طرح اس سے پہلے سوویت یونین کے خلاف ۔اشرف غنی حکومت اورامریکاکی درخواست پر سرکاری علماء کونسل میں شامل مختلف مکاتب فکرکے 2100سرکاری علمائے دین کابل کے ضلع تغمان میں واقع پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے لویہ جرگہ ہال میں بنائے گئے خیمے میں جمع ہوئے۔افغان علماء خود کش حملوں کے خلاف فتوے کے متن پرمباحثے میں مصروف تھے کہ ایک پیدل خود کش بمبارنے دن ساڑھے گیارہ بجے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پرپہنچ کراس وقے اندرداخل ہونے کی کوشش کی جب علماء باہرنکلنے والے ہی تھے تاہم بمبارنے تلاشی کیلئے روکے جانے پرخودکو دہماکے سے اڑادیا جس سے مرکزی دروازہ مکمل طورپرتباہ ہوگیااوراس کے نتیجے میں علماء کی ہلاکتیں اوربیشترشدیدزخمی ہوگئے ۔
یہ بات قابل ذکرہے کہ علماء کانفرنس کی تیاری دوروزسے خفیہ طورپرکی جارہی تھی اورکانفرنس کے مقام اوروقت کومیڈیاسے مکمل طورپرمخفی رکھا گیاتھاتاہم داعش کے کارندے کانفرنس کامقام پتہ چلانے میں کامیاب رہے۔فوج اورپولیس کے سیکروں اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجودبمبادکالویہ جرگہ ہال کے دروازے تک پہنچناسیکورٹی کی بڑی ناکامی تصور کی جارہی ہے۔خودکش حملے کے بعدکانفرنس کادورانیہ فوری طورپر مختصرکردیا گیا۔اس دوران سرکاری علماء کونسل کے تحت ہونے والی کانفرنس کے شرکاے نے اتفاق رائے سے خود کش حملوں اورحکومت کے خلاف جاری مسلح جدوجہدکوحرام اورشرعاًحران قراردیدیا۔فتوے میں کہاگیاہے کہ افغان حکومت کے خلاف جاری جنگ اورایسے گروہوں کی مالی معاونت غیر شرعی اورغیرآئینی ہے۔حکومت کے خلاف ہتھیاراٹھانے والے شرپسندہیں۔انہوں نے غنی حکومت سے سوشل میڈیاپراسلام،شانِ رسالت میں گستاخیوں کی روک تھام،شراب کی فروخت اورمنشیات کے استعمال پرمکمل پابندی کابھی مطالبہ کیا۔غنی حکومت سے افغان تنازع کے حل کیلئے قیدیوں کی رہائی،رات کوچھاپوں اوربمباری کےسلسلے کوفوری بندکرنے کامطالبہ بھی کیا۔سرکاری علماءنے جارح غیرملکی افواج سے بھی افغانستان چھوڑنے کی اپیل کی ۔
ذرائع کاکہناہے کہ بیشترعلماء کایہ مانناتھا کہ جاری جنگ کی بڑی وجہ امریکی فوج کی موجودگی ہے،اس لئے افغانستان سے مریکی فوج کاانخلاء بہت ضروری ہے۔افغان طالبان سے افغان حکومت سے مذاکرات کی بھی استدعاکی اورافغان حکومت مدارس کونشانہ بنانے سے بازرہے تاکہ عوام طالبان کی بجائے افغان حکومت کی حمائت پرآمادہ ہوں۔کئی افغان وزراء لسانیت اورفرقہ واریت کوفروغ دے رہے ہیں،اسی وجہ سے طالبان کی حمائت بڑھ رہی ہے۔افغان علماء نے پاکستان اور سعودی عرب ودنیابھرکے علماء سے افغان جنگ کے خاتمے کیلئے اپناکرداراداکرنے اورافغان علماء کی حمائت کی بھی درخواست کی۔پاکستان اورسعودی عرب کے علماء جولائی میں ہونے والی افغان علماء کانفرنس کوکامیاب بنانے کیلئے طالبان کی شرکت کویقینی بنانے کیلئے اپنااثرورسوخ استعمال کریں۔خودکش حملے کے خلاف مشترکہ فتویٰ غفوراللہ مراد،عنایت اللہ بلیغ وسیدمحسنی نامی علماء نے جاری کیااورمتفقہ فتوے کے چیدہ چیدہ نکات پڑھ کرسنائے۔
غفوراللہ مرادکاکہناتھاکہ افغان حکومت اورغیرملکی افواج کے خلاف جاری جنگ کاحقیقی ہدف خواتین اوربچے ہیں۔سیدمحسنی نے افغان ٹی وی پر شدیدتنقیدکرتے ہوئے کہاکہ وہ فرقہ واریت کو بڑھاوادے رہے ہیں،حکومت فرقہ واریت کوقابوپانے کیلئے متعلقہ افرادکوخلاف فوری کاروائی کرے کیونکہ فرقہ واریت سے افغانستان تقسیم ہوسکتاہے۔انہوں نے فتوے کی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ فتوے میں طالبان کاکوئی ذکرنہیں بلکہ مسلح گروہوں کی جانب سے خودکش حملوں کوحرام قراردیاگیاہے اورطالبان اوردیگرگروپوں سے خودکش حملے روکنے کامطالبہ کیاہے کیونکہ خود کش حملوں میں بے گناہ افرادمتاثرہورہے ہیں۔عنائت اللہ بلیغ کے مطابق کانفرنس میں علماءکی اکثریت نے جنگ کے خاتمے وافغان جنگ کے پیداکردہ اصل مسائل پرگفتگوکی۔
ادھرافغان علماء کے فتوے کے جواب میں طالبان نے اپنے حامی علماء کوجوابی فتویٰ دینے کیلئے کہہ دیاہے۔طالبان کاکہناہے کہ وہ افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں،امریکی افواج نکل جائے توافغانستان میں جاری جنگ خوبخودختم ہوجائے گی۔ادھرافغان قومی اسمبلی اولسی جرگہ کے رکن محمدعلی اخلاقی کاکہناہے کہ فتوے کایہ ہرگزمطلب نہیں کہ طالبان ہتھیارڈال دیں تاہم نئے نوجوانوں کی طالبان میں شمولیت پراثراندازہو سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ نگارجنرل عتیق آمرخلیل نے کہاکہ کابل میں جمع ہونے والے علماء جنگ کوختم نہیں کر سکتے ۔انہوں نے نشاندہی کی کہ امریکی افواج کے کمانڈرجنرل نکولسن نے گزشتہ دنوں طالبان پرفوجی ہی نہیں مذہبی دباؤ بھی بڑھانے کی بات کی تھی۔طالبان کومذاکرات کی میزپرلانے کیلئے سیاسی دباؤمیں اضافہ کیاجائے گا۔ترجمان دفتر خارجہ پاکستان نے علماء کانفرنس پرخودکش حملے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے اسے دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان دکھ اورؤزمائش کی ہرگھڑی میں افغانستان کے ساتھ کھڑاہے اورقیمتی جانوں کے ضیاع پردلی دکھ پران کے ورثاسے تعزیت اور زخمیوںکی جلدصحت یابی کیلئے دعااورہرقسم کی امدادکی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے بھی کابل میں علماء کے اجتماع پرحملے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ حملہ دہشتگردی وتشددکے خلاف علماء کے پیغام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کیاگیا ہے اورامن واستحکام کیلئے یران افغان حکومت اورعوام کے ساتھ ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں موجوددہشتگردوں نے باجوڑاوربلوچستان کے علاقے قمردین کاریز میں پاک فوج کے جوانوں پرحملوں کاسلسلہ شروع کردیاہے جس کے نتیجے میں تادم تحریرپاک فوج کے پانچ جوان شہیدہوگئے ہیں جبکہ جوابی کاروائی میں دودرجن کے قریب دہشتگردواصل جہنم ہوچکے ہیں۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق سرحدی چوکیوں پر باڑلگانیوالے فوجی جوانوں پرفائرنگ کی گئی جس میں ایف سی کے چاراورپاک فضائیہ کاایک جوان زخمی ہوگیا۔باجوڑکے سرحدی علاقہ میں۲۴گھنٹوں میں سات حملے کئے گئے لیکن سیکورٹی فورسز نے باڑکی تنصیب اورسرحدی چوکیوں کے قیام سے روکنے کی دہشتگردوں کی تمام کوششیں نہ صرف ناکام کردیں بلکہ جوابی حملے میں چھ دہشتگردوں کوہلاک اورمتعددکوزخمی بھی کردیا۔ ایساہی فائرنگ کاایک اورواقعہ وزیرستان میں ہواجس میں پاک فوج کاایک اورجوان جام شہادت نوش کرگیا ہے۔ترجمان کاکہناتھاکہ افغانستان میں حکومتی عملداری نہ ہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پرحملے کررہے ہیں لیکن پاکستان تمام چیلنجزکے باوجود سرحدوں کومحفوظ بنانے کیلئے باڑکی تنصیب اورسرحدی چوکیوں کے قیام کاکام جاری رکھے گا۔
اس امرمیں کوئی شک نہیں کہ باڑکی تکمیل سے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کوبھی فائدہ پہنچے گا۔ایک تودونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف دہشتگردی پرمبنی کاروائیوں کے خلاف الزامات ختم ہوجائیں گے کیونکہ باڑکی موجودگی میں پھرحملے ہوہی نہیں سکیں گے لیکن یہاں ایک قدغن بہرحال موجودہے کہ افغان حکومت کی پاکستانی سرحدکے قریبی افغان علاقوں میں رٹ سرے سے موجودہی نہیں ہے اوراس وقت دہشتگردبھی افغان حکومت اورفورسزکی اس کمزوری کافائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں دہشتگردانہ حملے کررہے ہیں۔اس کی روک تھام کیلئے لازم ہے کہ افغان فورسزکم ازکم اپنے علاقوں میں اپنی رٹ قائم کریں اوردہشتگردیاغیرملکی جاسوسوں کوافغان اورپاکستان دشمنی زمینی کاروائیوں کی کھلی چھوٹ نہ دیں ،افغان فورسزسد راہ بنیں گی توپاک فورسزبھی افغان فورسزکی مددکیلئے آگے بڑھ سکتی ہیں لیکن اس کیلئے افغان فورسزکی جانب سے کسی پیش رفت کی بہرحال ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ افغان حکومت نے ماضی میں جورویہ اپنارکھاتھاکہ کسی بھی جانب سے ہونے والی دہشتگردی پرمبنی کاروائی پرفوری طورپرپاکستان کے خلاف الزام تراشی شروع کردینا، اب یہ رویہ بدلناہوگاکیونکہ یہ بھارت کی روش تھی۔وہ خوددہشتگردحملوںکے ڈرامے ترتیب دیتااور پھر کسی بھی کاروائی کے بعدفوری طورپرپاکستان کے خلاف الزام تراشی شروع کر دیتا ہے لیکن افغانستان کویہ روس نہیں اپنانی چاہئے کیونکہ ایک توافغانستان اور پاکستان دوہمسایہ ملک ہیں، نیزدونوں اسلامی اخوت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔دونوں جانب کے عوام مسلمان بھائی ہیں اورایک دوسرے کی فلاح چاہتے ہیں۔پاکستان پچھلی چار دہائیوں سے اپنے افغان بھائیوں کی اپنی سرزمین پرمہمان نوازی میں یہ ثابت کرچکا ہے ۔لہندااب حکومتوں کوبھی یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہئے کہ افغان اورپاکستانی عوام ایک دوسے کے جتنے محب اوردوست ہوسکتے ہیں اتناکوئی دوسرانہیں ہوسکتا۔اب وقت آگیاہے کہ اپنی حدودمیں اسلامی بھائی چارے کوسازگاربنانے کیلئے زمینی حقائق کوتسلیم کرتے ہوئے دلوں میں پھیلے ایک دوسرے کے خلاف شکوک وشبہات کوختم کیاجائے۔ اپنے مشترکہ دشمنوں کی چالوں کوبخوبی سمجھ کران کامشترکہ مقابلہ کرتے ہوئے انہیں اپنی سرزمین کواستعمال کرنے کی ہرگزاجازت نہ دیں ۔اشرف غنی اوران کے دیگررفقاء پریہ بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ بھارتی ”را”کے قائم کردہ تمام ٹھکانے جوافغان سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف دہشتگردکاروائیوں میں مصروف ہیں،فوری طورپران کوختم کریں تاکہ افغانستان کاآزمودہ دوست اوربرادرملک پاکستان جوبانہیں کھولے کھڑا،ان کے مصائب ختم کرنے میں اپنابھرپورکرداراداکرسکے۔
ابھی حال ہی میں مشہورزمانہ جرمنی میں مقیم مصنف ”الیاس ڈیوڈسن”نے نوسوپانچ صفحات پر مبنی کتاب”دی بٹریل آف انڈیا”میں تاج محل ہوٹل ممبئی پرہونے والے دہشتگردحملے کی قلعی کھول کررکھ دی ہے کہ بھارت نے یہ ڈرامہ امریکااوراسرائیل کے مزیدقربت حاصل کرنے کیلئے رچایا اور واقعات ثابت کرتے ہیں کہ اس واقعے میں دہشتگردوں کے استعمال میں ہونے والی جوکشتی میڈیامیں دکھائی گئی اس کے بارے میں خودبھارتی نیوی کے کمانڈرنے اسے مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے بیان دیاکہ ایسی کمزور کشتی سے اس قدرطویل اورخطرناک سفرکرناممکن ہی نہیں اور جس سمندری روٹ کاتذکرہ کیاگیاہے وہاں پربھارتی نیوی کا۲۴گھنٹے سخت ترین گشت رہتاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بیان کے بعدنیوی کے اس افسرکو غائب کردیاگیااورمیڈیااس کوباوجود کوشش کے ڈھونڈنہیں سکا۔
اسی طرح۱۸فروری۲۰۰۷ءمیں سمجھوتہ ایکسپریس کی آتشزدگی جس میں۶۸پاکستانی زندہ جل کر خاکسترکردئیے گئے تھے،جس پولیس افسر ”ہیمنت کرکرے” نے شب وروزتحقیق کے بعدبھارتی فوج کے حاضرسروس کرنل پروہت کومجرم قراردیاتھا، وہ تاج محل ہوٹل پردہشتگردانہ کاروائی کوروکنے کیلئےجارہاتھا تواس ایماندارافسرکونشانہ بناکرگولی ماردی گئی تاکہ وہ اس معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ سکے اوریہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے کرنل پروہت کوگرفتارتوکرلیالیکن اب اسے نہ صرف رہاکردیاگیاہے بلکہ سمجھوتہ ایکسپریس کے مقدمے میں ان تمام ملزمان جنہوں نے اس واقعے میں اپنے ملوث ہونے کاباقاعدہ اعتراف کیاتھا،ان کوبھی رہاکردیاگیاہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں بھارتی میڈیامیں شائع ہونے والے تمام واقعات کوایک تحقیقی اندازمیں جمع کرکے بڑی عرق ریزی کے بعد ان تمام حوالوں کواپنی کتاب میں بھی شامل کردیاہے جس سے اس کتاب کی صداقت اوربھارت کی اس مکاری کے تما م ثبوت شامل کردیئے ہیں۔ مصنف ”الیاس ڈیوڈسن”کی یہ کتاب بھارت میں ہی شائع ہوئی ہے تاکہ کل کلاں بھارت اس کتاب کے بارے میں کوئی نئی موشگافیاں کرنے کے قابل نہ رہے۔
بھارت نے یہ ڈرامہ رچایاتواس وقت پاکستان میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اوراس وقت کے وزیر اعظم نے بغیرکسی مشورے کے آئی ایس آئی کے سربراہ کوبھارت جانے کاکہاجس پربھارتی میڈیا نے اپنے اخبارات میں کئی ایسی بیہودہ سرخیاں (بھارتی وزیراعظم نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو طلب کرلیا) لگاکرپاکستان پردباؤبڑھانے کی بھونڈی کوشش کی جس پر عسکری حکام نے دانشمندی کااظہارکرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیق میں معاونت کی یقین دہانی کروائی لیکن بھارت کس طرح اپنے اس ڈرامے میں آئی ایس آئی کی معاونت قبول کرسکتاتھا۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے سیکورٹی ایڈوائزرجنرل محمود درانی،وزیرداخلہ رحمان ملک ،شیری رحمان اور کچھ زرخرید صحافی کس کے اشارے پربھارتی الزامات کو سپورٹ کررہے تھے۔ کیااب یہ ضروری نہیں ہوگیاکہ ان تمام افرادجواس بھارتی ڈرامے کی حمائت میں پیش پیش تھے اوراب بھی بغض معاویہ میں پاکستانی اداروں کوملوث کرکے اپناسیاسی قدبڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں،ان سب کے خلاف سپریم کورٹ ایک آزادتحقیقاتی کمیٹی کاقیام عمل میں لائے جس کیلئے جرمنی کے مصنف نے اپنی کتاب میں ٹھوس شواہدکاایک پہاڑجمع کرکے سامنے رکھ دیاہے۔
اس مشکل اورکڑے وقت میں ہمارے تمام دشمن اکٹھے ہوکرجب پاکستان کو”دہشتگرردملک”قرار دینے کیلئے سازشوں میں مصروف ہیں،اس کے مقابلے میں۲۰جون کوبرطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈزمیں لندن انسٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیانے”الیاس ڈیوڈسن”کوبلاکران کی زبانی بھارتی سازشوں کوبے نقاب کرکے پاکستان کی بہترین خدمت کاثبوت دیاہے۔ میری دانست میں یہ کتاب پاکستان کیلئے ایک غیبی امداد ہے جس نے اس مشکل وقت میں پاکستان کوایک پرامن اوربھارت کوایک دہشتگردملک قراردیاہے۔ میں نے ذاتی طورپرجب مصنف کو پاکستان آنے کی دعوت دی توانہوں نے بڑی خوش دلی سے اسے قبول کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ دراصل انہوں نے یہ کتاب لکھ کردنیا سےتیسری عالمی جنگ کوروکنے کی کوشش کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں