بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی خبرنہ تھی

:Share

ابھی اچانک برادرم ناصراقبال خان صاحب نے ورلڈکالمسٹ کلب کے مرکزی وائس چیئرمین روزنامہ الشرق کے چیف ایڈیٹر برادرم میاں محمدسعیدکھوکھرصاحب کی والدہ ماجدہ کاحق رحمت سے ملنے کی اندوہناک اطلاع دی انااللہ واناالیہ راجعون ۔دل جو پہلے ہی چند برسوں سے ضعف کی طرف مائل ہے اس کی غیرمتوازن دھڑکن کئی مرتبہ اپنے رب کی طرف متوجہ بھی کرتی رہتی ہے لیکن رب کے نیک بندوں کااس دنیاسے کوچ کرجانے کی خبریں ایک تلاطم پیداکردیتیں ہیں اورشدت سے نبی کریمۖ کا فرمان مبارک یادآتاہے کہ ”دنیاایک جیل ہے”۔پہلے میں نے سوچا کہ اپنے محترم بھائی کو ٹیلیفون پردوبارہ پرسہ دوں پھرخیال آیا کیوں نہ تحریری طوردل کی کچھ باتیں کرلی جائیں تاکہ اپنے ہراس بہن بھائی کو پرسہ دے دوں جواپنے والدین یااپنے پیاروں کے داغ مفارقت کازخم اپنے دلوں میں چھپائے ان کی یاد میں پریشان اورہلکان رہتے ہیں تاکہ ان سب کے دل کے لئے کسی حدتک باعث سکون بن سکیں بس اسی خیال کی وجہ سے اس جا نکا ہ حا د ثہ کی تعزیت کیلے ٔ فو ر اً یہ تحر یر قلم کی نو ک پر آ گئی ہے کہ شا ید اس تحر یر سے ان کے غم اورخودمیرے دل کا بو جھ کچھ ہلکا ہو سکے ۔
اس صدمے نے آپ کے قلب و ذ ہن پریقینا ایک بہت گہرا اثر چھو ڑا ہو گا لیکن مو ت ا یک ا یسی حقیقت ہے جس سے ہم سب لا پرواہ ہیں۔ درا صل مو ت سے زیادہ خوفناک شے موت کا ڈر ہے،جیسے جیسے زندگی کاشعوربڑھتا ہے زندگی کی محبت بڑھتی ہے،پھر موت کا خوف بھی بڑھنے لگتا ہے۔ جس کو زندگی سے محبت نہ ہو ا سے بھلا مو ت کا کیا خوف!جب ا نسان کے دل میں موت کا خوف پیداہوجائے تواس کی حالت عجیب ہوتی ہے ایسے جیسے کو ئی انسان رات کے اندھیرے سے بھاگ جانا چاہے یادن کوسورج سے بھاگ جانالیکن بھاگ نہیں سکتا۔
کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو موت کا خطرہ اور خوف لاحق ہو گیا وہ بھا گنے لگا تیز بہت تیز اسے آواز آ ئی ”پگلے موت تیرے پیچھے نہیں بلکہ تیرے آگے ہے” وہ آدمی فوراً الٹی سمت بھا گنے لگا پھر آواز آ ئی ”نا دان موت تیرے پیچھے نہیں بلکہ تیرے آگے ہے” آدمی بولا ”عجیب بات ہے پیچھے کو بھا گتا ہوں تو پھر بھی مو ت آگے ہے،آگے کو دوڑتا ہوں تو پھر بھی موت آگے ہے’ ‘ آواز آ ئی ”موت تیرے ساتھ ہے،تیرے اندرہے، ٹھہرجا،تم بھا گ کرکہیں نہیں جاسکتے۔ جوعلا قہ زندگی کاہے وہ ساراعلا قہ موت کاہے”اس آدمی نے کہا”اب کیاکروں؟”جواب ملا ” صرف انتظارکروموت اس وقت خودہی آجائے گی جب زندگی ختم ہوجائے گی اورزندگی ضرورختم ہوگی کیونکہ زند گی موت کی اما نت ہے اورکسی کی جرأت نہیں کہ اس میں خیانت کرسکے۔زندگی کاایک نام موت ہے،زندگی اپنا عمل ترک کردے تواسے موت کہتے ہیں یازندگی کاانجام! ”اس آدمی نے پھرسوال کیا ”مجھے زندگی کی بہت تمنّاہے لیکن تومجھے موت کی شکل دکھادے تاکہ میں اسے پہچان لوں”آوازآئی”آئینہ دیکھوموت کاچہرہ تیرااپناچہرہ ہے،اسی نے موت بنناہے،اسی نے مردہ کہلانا ہے،موت سے بچناممکن نہیں۔”
مو ت کے خوف کاکیا علاج!لاعلاج کابھی بھلاکوئی علاج ہے۔لاعلاج مہلک مرض صرف زندگی کاعارضہ ہے جس کاانجام صرف موت ہے۔زندگی ایک طویل مرض ہے جس کا خاتمہ موت کہلاتاہے۔روزاوّل سے ز ندگی کایہ سلسلہ چلا آرہاہے کہ زندگی کاآخری مرحلہ موت ہے اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہ توزندگی کاحصّہ ہے، بس اس کی تیاری کی فکرہوناضروری ہے۔ہم کشاں کشاں اس کی طرف سفرکرتے ہیں،ہم خود ہی اس کے پاس چل کرآتے ہیں۔زندگی کے امکانات تلاش کرتے کرتے ہم اس بند گلی تک آجا تے ہیں جہاں سے مڑنانا ممکن ہوتاہے۔آگے راستہ بندہوتاہے،ہم گھبراجاتے ہیں اورپھرشورمچاتے ہیں، خوب شورمچا تے مچاتے بالآخرخودہمیشہ کیلئے خاموش ہو جاتے ہیں۔
موت نہ ہو تو شاید زندگی ایک المیہ بن جائے ،ایک طویل دورانئے کا بے ربط ڈرامہ کہ ٹی وی پرچلتارہے اورلوگ بورہوکرسوجاناپسند کریں۔کہتے ہیں کہ ایک لافانی دیوی کوایک خوبرولیکن فانی انسان سے محبت ہوگئی۔اس نے غلطی کو محسوس کیا کہ یہ فانی انسان ہے،مر جائے گا۔وہ دیوتاؤں کی ایک عظیم سردار کے پاس روتی ہوئی گئی کہ اے عظیم دیوتا!میرے محبوب کولافانی بنادو۔دیوتا نے بڑی محبت سے سمجھایاکہ یہ ناممکن ہے،انسان کوموت کاحقداربنایاجاچکا ہے۔دیوی نے گریہ وزاری کے ساتھ اصرارکیاتوفیصلہ دیوی کی خواہش کے مطابق کردیا گیاکہ اسے موت نہیں آئے گی۔ دیوی من کی مرادپانے پرخوش ہو گئی۔وقت گزرتاگیا،بڑھاپاآیا،خوبصورت چہرے پرجھریوں نے ڈیرہ ڈال دیا، توانائی کمزوری میں تبد یل ہوگئی،وقت کے ساتھ بینائی بھی رخصت ہوگئی، یادداشت نے ساتھ چھوڑدیا۔”مضمحل ہوگئے قوأسارے”
وہ انسان چلّایا”اے دیوی خداکیلئےمجھے نجات دلاؤمیں اس عذاب کوبرداشت نہیں کرسکتا۔” دیوی نے اپنی دوسری غلطی کوبھی محسوس کیا،پھرد یوتاؤں کے سردارکے پاس حاضر ہوئی کہ اے دیوتاؤں کے بادشاہ میرے محبوب کوموت عطا کر،انسان کوانسان کاانجام دے دو۔بس یہی رازہے کہ ا نسان کوانسان کاانجام ہی راس آتاہے۔بات سمجھنے کی ہے،گھبرانے کی نہیں،مقام غورکاہے خوف کانہیں۔ زندگی صرف عمل ہی نہیں عرصہ بھی ہے۔اگر صرف عمل ہوتاتوکوئی ہرج نہ تھا،اس عمل کیلئے ایک وقت بھی مقرر ہو چکا ہے۔
اس وقت کے اندراندرہی سب کچھ ہوناہے کیونکہ اس وقت کے بعدکچھ نہیں ہوتا۔ ہماراہونا صرف نہ ہونے تک ہے۔اگرہم زندگی کودینے والے کاعمل مان لیں تو اس کے ختم ہونے کااند یشہ نہ رہے۔دینے والاہی زندگی لینے والاہے۔ڈرکی کیا بات ہے،دن بنانے والے نے ہی رات بنائی ہے اوررات بنانے والا ہی دن طلوع کرتاہے۔پہاڑ بنانے والادریا بناتاہے،صحرابنانے والا نخلستان پیدافرماتاہے۔زندگی تخلیق کرنے والاموت کوپیدافرماتاہے،یہ اس کے اپنے اعمال ہیں،ہم صرف اس کے عطا کیے ہوئے حال پرزندگی گزارنے پرمجبورہیں۔اس نے زندگی اورموت کواس لیے پیداکیاکہ دیکھاجائے کہ کون کیاعمل کرتاہے۔اس کا ئنا ت میں کوئی بھی ایسا نہیں آیاجوگیا نہ ہو۔کو ئی پید ائش موت سے بچ نہیں سکتی،جو کچھ بھی ہے نہ ہوگا۔ہرشے لاشے ہوجائے گی مگرصرف میرے رب کی ذات ہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گی۔باقی سب فنا ہے۔
بے مصرّف زندگی کی سزاموت کاخوف ہی ہے،بامقصدحیات موت سے بے نیاز، موت کے خوف سے آزاد،اپنے مقصد کے حصول میں مصروف رہتی ہے۔ عظیم انسان بھی مرتے ہیں لیکن ان کی موت ان کی عظمت میں اضافہ بھی کرتی ہے اوروں کیلئےباعث صدرشک بھی۔موت انسان سے اس کی بلندنگاہی،بلندخیالی اور بلندہمّتی نہیں چھین سکتی۔ وہ لوگ موت کے سائے میں زندگی کے ترانے گاتے ہیں،زندگی کانغمہ الاپتے ہیں،زندگی کے اس مختصرعرصے میں جواں ہمّت توآسمانوں کوچھوآئے۔عالی مرتبت عرش کی بلندیاں سر کرآئے اورکم حوصلہ اپنے اندیشوں کے خول سے باہرنہ نکلے۔موت فانی زندگی کودائمی حیات میں بدل دیتی ہے۔فناءسے بقاءکاسفرگھوڑے کی پشت پرہوتا ہے۔ موت کیلئے تیاررہو،موت کاخوف نہ کرو،بس یہی موت کاپیام ہے۔
موت کاغم اس لیے ہوتاہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے عزیزوں اورپیاروں سے جداہوجا ئیں گے۔عزیزوں کوتوہم اپنی زندگی میں ہی جداکردیتےہیں۔ بیٹیوں کی رخصتی کیلئےکتنی دعائیں کرتے ہیں،کس قدر مناجات اورگڑگڑاکرجلدرخصتی کی تمنّادل میں رکھتے ہیں۔ہم صاحب تاثیراسی بزرگ کوکہتے ہیں جو ہماری بیٹیوں کوجلدرخصت کروادے اورصاحب تاثیر ہیں کہ اپنی جدائی کیلئے دعاؤں میں نہ صر ف بخل کرتے ہیں بلکہ اس کے تصوّرسے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔جدا ئی توایک دن ہوہی جانی ہے۔ایک آدمی کی ماں کاانتقال ہوگیا،وہ بڑارویا، بڑاپریشان ہوا!موت نے بڑاظلم کیا،اسے چین نہ آیا۔آخرکاراس نے ایک بزرگ استادسے رجوع کیا۔اس نے جواب دیا”تم اتنے پریشان کیوں ہوتے ہو؟کچھ دنوں کی ہی توبات ہے تم بھی اپنی والدہ کے پاس پہنچا دیئے جاؤ گے۔” بس یہی ہے موت کاراز یا زندگی کا راز۔ہم کچھ عرصہ اپنی اولاد کے پاس رہتے ہیں اورپھر اپنے ماں باپ سے جا ملتے ہیں۔بس یہ الگ بات ہے کہ بعض اچانک اورجلد اس سفرکوطے کرلیتے ہیں بلکہ ایک ہی جست میں ساری مسافت پھلانگ کرمنزل پر جاپہنچتے ہیں اوربعض اپنے مولاکے احکام کی بجاآوری میں مصروف رہتے ہیں
بس! یہی موت اور زندگی کا فلسفہ ہے بلکہ ہر موت اپنے لواحقین کیلئے یہ پیغام چھوڑ جاتی ہے کہ جلد یا بدیرآپ نے بھی مجھے وہاں آکر ملنا ہے۔جہا ں ہم سب بے بس اپنے مولا کی مغفرت کے منتظر ہوں گے۔مرحومہ اس فانی دنیا سے دار بقأ کی طرف تشریف لے گئی ہیں۔اس عارضی زندگی کی بہاروں اورگلوں کی خوشبوسے منہ موڑکر دایمی بہار،سداخوشبوؤں ومہک کے گلستانوں میں براجمان ہوگئی ہیں۔اپنے ہرتعّلق رکھنے والوں کوچھوڑکراپنے مولاکے ساتھ مضبوط تعلق ورشتہ جوڑچکی ہیں۔پھرموت توکوئی نئی چیزنہیں۔موت توہرایک کوآنی ہے۔موت کے قا نون سے نہ توکوئی نبی مستثنیٰ ہے نہ کوئی ولی۔جوبھی آیاہے اپناوقت پوراکرکے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔ ہم سب اس کی امانت ہیں،پھر کس کی مجال جو اس میں خیانت کرسکے۔موت لکھی نہ ہوتوموت زندگی کی خودحفاظت کرتی ہے اورجب مقدرہوتوزندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے۔زندگی سے زیادہ کوئی جی نہیں سکتااور موت سے پہلے کوئی مرنہیں سکتا۔
میاں محمدسعیدکھوکھر صاحب ،آپ کی والدہ مرحومہ کی رجب المرجب کے مہینے میں اپنے مولا سے ملاقات ہوگی۔میرا کریم رب یقیناً اس حرمت والے مہینہ میں اپنے مہمانوں سے بڑا فیاضانہ سلوک فرماتے ہیں اور یقیناً مرحومہ اپنے تمام حسنات کے طفیل بہت ہی شاداں اورفرحاں ہوں گی۔انہوں نے اپنی زندگی میں یقیناً اپنے صاحبزادوں میاں محمدسعیدکھوکھر،میاں ریاض احمداورمیاں افتخاراحمدآپ سب کی بہترین کامیابیوں کیلئے بے شمار دعائیں کی ہوں گی کہ میرارب بھی اپنی محبت کاتذکرہ ”ماں سے سترگنا”کہہ کرگنواتاہے گویاماں ہی محبت کاستعارہ ہے ۔یقینا انہوں نے اپنے ربّ کریم سے کئی مناجات کی ہوں گی اوربے شک میراکریم اپنے نیک بندوں کی دعاؤں کو ضرورقبول کرتا ہے۔ربّ رحمان سے میری دعا ہے کہ محمدسعیدکھوکھر،میاں ریاض احمداورمیاں افتخاراحمدکواس دنیااورآخرت میں اس صبر کا بہت ہی احسن نعم البدل عطا فر مائے۔مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اورروزِ جزاکے دن ہمارے اورآپ سب کے آقاختم الرسول ۖ کے دستِ مبارک سے حوضِ کوثرپرشفاعت کاپروانہ نصیب ہواور ہم سب کو بھی موت کی تیاری کی فکرنصیب فرمائے۔ربّ العزت ہمیں دنیاکے تمام امتحانات میں سرخروفرمائے اورروزِ قیامت اللہ کے رسولۖ کے سامنے شرمندہ ہونے سے محفوظ فرمائے۔آمین
بیٹھے تھے گھنی چھاؤں میں اس کی خبرنہ تھی
بڑھ جائے گی دھوپ اوریہ سایہ نہ رہے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں