انسانی حقوق کااندھااپاہج عالمی منشور

:Share

جب سے متعصب مودی نے اقتدارسنبھالاہے ،بھارت میں آرایس ایس اوربی جے پی کے غنڈوں نے تمام اقلیتوں کاجینا دوبھراور قبرستان بناکررکھ دیاہے اوربالخصوص مسلمانوں پر بہیمانہ ظلم وستم کی انتہاء ہوگئی ہے۔یہ متعصب غنڈے جب جی چاہے کسی مسلمان کوپکڑکرکسی بھی جگہ لے جاتے ہیں ،ایک غنڈہ موبائل پرفلم بناتاہے ،دوسرا مسلمان کوحکم دیتاہے ، جے شری کاکانعرہ لگاؤ۔حکم عدولی پربے پناہ تشددکیاجاتاہے اوراگرمضروب مجبوری میں ان کے حکم کی تعمیل کرے تو اسے بارباریہ نعرہ لگانے پرمجبورکیاجاتاہے،اس پرجب دل نہیں بھرتاتوپاکستان اور اسلام کوغلیظ گالیاں دینے پرمجبورکیا جاتاہے جس کے بعدسرعام ہاتھ میں پکڑے ہوئے گنڈاسے یاتلوارسے خوفناک وارکرکے اس کوموت کے گھاٹ اتاردیاجاتاہے اورمجبورومقہورجان بخشی کیلئے گڑگڑاتاہواشہیدہوجاتاہے جس کے بعدآرایس ایس کادوسراغنڈہ اس کی لاش پرتیل چھڑک کرآگ لگادیتاہے اورپاکستان کو دہمکی دیتاہے کہ بھارت کے خلاف جہادبندکروورنہ یہاں مسلمانوں کایہی حشر کریں گے۔یہی سلسلہ مقبوضہ کشمیرمیں قابض بھارتی فوج نے بھی شروع کر رکھاہے ۔وہ کشمیری نوجوانوں کوپکڑکر ان پربہیمانہ ظلم وستم اورمارپیٹ کے دوران انہیں بھی پاکستان اوراسلام کو گالیاں دینے پر مجبورکرتے ہیں اورڈھٹائی کایہ عالم ہے کہ بعدازاں سوشل میڈیاپریہ ویڈیو وائرل کی جاتی ہے تاکہ کشمیری مسلمانوں دلبرداشتہ ہوکرجدوجہد آزادی میں حصہ نہ لیں۔
مجھے ایک پاکستانی دانشوردوست نے بتایا:میں نے ایک ایسا ہی ویڈیوکلپ جوآر ایس ایس نے وائرل کیاتھا،اپنی فیس بک پرچندروزکیلئے لگایاتومیری فیس بک اورپیج دودن کیلئے بندکردیئے گئے۔حیرت تواس بات پرہے کہ وہی ویڈیوکلپ جس بھارتی پیج سے میں نے لیاتھا،وہ کئی ماہ سے ایسے ویڈیو کلپ چلارہاہے اوراب بھی کئی ایسے خوفناک ویڈیوکلپ اس کی فیس بک پرچل رہے ہیں لیکن اس پرکوئی پابندی نہیں۔میں نے تویہ کلپ ان پاکستانیوں بقراطیوں کیلئے وائرل کیاتھاجو دن رات اس متعصب بھارت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے اورانہیں اس وقت نیندنہیں آتی جب تک وہ کسی بھارتی فلم کودیکھ نہ لیں اوربے شرمی کی حد تویہ ہے کہ موجودہ حکومت توپاکستانی سینماؤں میں ٹھاٹھ سے وہ فلمیں بھی بغیر کسی سنسر کے چلارہاہے جس کودوسرے مسلمان ممالک نے اپنے ہاں سینماؤں میں چلنے کی قطعاًاجازت نہیں دی۔بے غیرتی کایہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں سنسر بورڈکے سربراہ کی جب اس معاملے پرتوجہ دلائی گئی توانہوں نے انتہائی بے شرمی سے اسےاظہارآزادی پرقدغن قراردیتے ہوئے سوال پوچھنے والے کو جھڑکناشروع کردیا۔
بھارتی دہشتگردی اوربھارتی دہشتگردوں کے کرتوت ہمارے اپنے مہربان ہی لوگوں کے سامنے نہیں لانے دیتے،یہی وجہ ہے کہ ہم آج پوری دنیا میں انتہائی نچلے درجے کوپہنچ چکے ہیں ۔ جہاں تک بھارت کی دہشتگردحکومت کاتعلق ہے تواس نے وندے ماترم،سوریہ نمسکاراوریوگاکے نام پر مسلمانوں کے مذہبی استحصال کے ساتھ بی جے پی کے لیڈروں نے مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کاسلسلہ بھی شروع کررکھاہے حتیٰ کہ یہاں تک کہاگیاکہ جوسوریہ نمسکارنہیں کرتااسے ہندوستان چھوڑ کرچلاجانا چاہئے۔بعض فرقہ پرست لیڈروں کے مطابق یوگاکرنے سے اسلام منع نہیں کرتا کیونکہ یوگا توایک قسم کی ورزش ہے جو صحت کیلئے سودمندہے۔ان کایہ بھی کہناہے کہ کئی مسلمانوں ملکوں میں یوگاکیا جاتاہے تو پھر بھارتی مسلمانوں کویوگاپرکیوں اعتراض ہے لیکن یوگاکی حمائت میں بات کرنے والے فرقہ پسندمسلم دشمنوں کویہ معلوم ہوناچاہئے کہ کچھ مسلمان ملکوں میں یوگاکیاجاتاہے لیکن وہاں یوگاکے دوران منتروں کاجاپ اور سوریہ نمسکار نہیں کیا جاتامگربھارت میں یوگاکے نام پرمسلمانوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سوریہ نمسکارکریں۔اوم کاجاپ کریں ۔ اس مذموم پروگرام میں بلا تفریق سارے ہندوستانیوں بشمول مسلم اقلیت کی شرکت پرحکومتی اصرار غیر جمہوری ،غیراخلاقی اوراسلام مخالف طرزِ عمل ہے۔
ایک سال قبل سب وکاس کانعرہ لگاتے ہوئے مودی حکومت نے مسندِ اقتدارپر تسلط جمایامگراس دورِ حکومت میں فرقہ پرستی انتہاء کوپہنچ چکی ہے جبکہ یوگامیں شامل سوریہ نمسکاراوراشلوکوں پرمبنی منترپڑھنے کاعمل بھارتی سیکولرآئین کی روشنی میں ملنے والے بنیادی مذہبی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔مودی حکومت کے نمائندے غیرجمہوری بیانات دینے اورمسلمانوں کی مذہبی جذبات مجروح کرنے کی پالیسی پرعمل پیراہیں اور گائے کاگوشت کھانے والوں کوپاکستان بھیجنے کی دہمکی دینا،گھرواپسی اورچارشادیوں کا تمسخراڑاناان کامعمول بن چکاہے۔یوگااصل میں گیان اور دھیان کاایک طریقہ ہے جس کامقصد بھگوان کے آگے خودسپردگی ہے۔سوریہ نمسکاریعنی سورج کی پوجایوگاکااہم عنصرہے۔ یوگابنیادی طورپریوگ سے نکلا ایک لفظ ہے جس کے معنی جوڑکے ہیں۔یوگ کی تاریخ اورپس منظرسے یہی معلوم ہوتاہے کہ یہ درحقیقت ہندوؤں میں عبادت کاایک طریقہ ہے۔ بنیادی طورپرہندوازم کابنیادی فلسفہ ہے جس میں آتما(روح)پرماتما (بھگوان)اورشریر(جسم)کومراقبے کے ذریعے ایک ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یوگ کاپہلاطریقہ ہندوؤں کے مطابق ان کے بھگوان شنکرنے ایجادکیاتھااور دوسراطریقہ پنانچلی نام کے یوگ گرونےشروع کیاتھا۔لوگ ہندوؤں کے علاوہ بدھ مت کے ماننے والوں میں بھی رائج ہے۔یہ محض ایک ورزش نہیں کیونکہ اس کی ایک مذہبی حیثیت رہی ہے۔یوگ کے دوران مذہبی اشلوک کی ادائیگی بھی اس کاحصہ ہے۔ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہزاروں آشرم قائم ہیں اورحکومت کی طرف سے انہیں سرکاری امدادبھی دی جاتی ہے جبکہ مودی کی حکومت کی تشکیل میں اہم کرداراداکرنے والے ”بابارام دیو”یوگاکے سب سے بڑے پیروکار ہیں اورانہی کی کوششوں سے اقوام متحدہ میں یوگاکاعالمی دن منانے کااعلان کیا گیاتھا جس میں بھارتی فرقہ پرست وزیراعظم اورآرایس ایس کے پرچارک مودی نے اہم کرداراداکیا۔مودی حکومت بھارت کوہندوراشٹربنانے کے ایجنڈے پرعمل پیراہے اوریوگاکا عالمی دن منانے کے پیچھے بھی حکومت کامقصدکارفرما ہے۔
مودی نے اپنے اقتدارکے پہلے سال میں ۲۷ستمبر۲۰۱۴ءکواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے۶۹ویں سیشن میں خطاب میں بین الاقوامی برادری سے یوگاکےانعقاد کی اپیل کی تھی۔۱۱دسمبرکوجنرل اسمبلی نے اس تجویزکو۲۱جون کوعالمی یوگاڈے منانے کی تجویزکواتفاق رائے سے منظورکرلیا۔بھارت کی موجودہ(مودی)سرکار چانکیہ کے نقش قدم پرچل رہی ہے۔ اس کی دوواضح پالیسیاں ہیں،اوّل ان تمام جھوٹے وعدوں کوبھارتی عوام کے دماغ سے صاف کردیاجائے جو مودی نے الیکشن کے دوران کیے تھے تاکہ ہندوستانی عوام سمجھنے کے اہل ہی نہ رہیں کہ ان کے ساتھ کوئی دھوکہ یاٹھگی ہوئی ے اورناراض ہونے کی بجائے مودی کی مالاجپتے رہیں۔ دوم ،ہندواکثریتی طبقے کے دماغوں میں ہندتواکے مفروضے کااس طرح پرچارکیا جائے کہ انہیں یوں لگے کہ اب وہ ایک ہندودیش کے شہری ہیں اورہندوسنسکرتی دنیامیں سب سے اعلیٰ ہے اور ہندو عوام کویہ فضیلت سنگھ پریواراورمودی کے طفیل ہی مل سکی ہے۔ان دونوں پالیسیوں کوہندوستانیوں کے دل ودماغ میں متواترپختہ کیاجارہاہے۔ویدک کال میں جنگی جہازوں کا استعمال اس قدیم دورمیں جدیدمیڈیکل سائنس کی کرشماتی سرجری سے بھی زیادہ پیچیدہ آپریشن اوراب یوگاکی اچانک اس قدرتبلیغ الیکشن کے دوران مودی باقاعدہ اعلان کرتے تھے کہ انہیں خودبھگوان نے بھیجاہے تاکہ اس دیش کاکلیان کرسکیں۔
آج سے پچاس سال قبل امریکااوریورپ سے سیاح کثیرتعداد میں بھارت آناشروع ہوئے،اس زمانے میں ہندوعوام سادھوؤں اور سنتوں کوکسی اور دنیاکی مخلوق سمجھتے تھے اوران کو سمجھنے کیلئے ان کے آشرموں میں قیام کرتے تھے۔ان سادھوؤں،سنتوں کی سیوا کرتے اوربدلے میں تین چیزیں(بھنگ،گانجااوریوگا)ساتھ لے جاتے۔ ان سیاحوں کیلئے
رشی کیش،ہری دوارکے آشرم ہی تھکانے والے تھے جہاں ہندویوگی اورسادھوچلم کے کش کے ساتھ دیگربیہودہ اعمال کی تعلیم دیتے تھے۔ان لوگوں نےامریکااوریورپ
میں بھی آشرم قائم کیے اورلوگوں کویوگاکی تعلیم دینے لگے جس سے کروڑوں ڈالرکماتے۔ہندو دھرم میں تمام علوم کاسرچشمہ ویدہیں اور ویدوں کے عالم اورتخلیق کاروں نے یہ سسٹم ایجادکیا،اس لئے مختلف آسنوں کے دوران مختلف دیوتاؤں سے شکتی اورصحت پرارتھناکی جاتی ہے،ان کی تعریف کی جاتی ہے۔ سوریہ(سورج)آسن میں سورج کے سامنے ڈنڈوت کیاجاتاہے۔ منتر اوراشلوک پڑھ کران سے مددکی درخواست کی جاتی ہے۔ظاہرہے کہ مسلمان یوگا توکرسکتے ہیں لیکن اشلوکوں کے ورد سمیت یہ تمام اعمال انجام نہیں دے سکتے جو غیراللہ کی پرستش پرمحمول ہیں مگرسب کے سب مسلمان ہرمذہبی رسم کی تہ تک پہنچتے کی حاجت محسوس نہیں کرتے اوران کی آزاد اورغیرجانبدار طبیعت بے حدمضررساں بھی ثابت ہورہی ہے،دوسری طرف مسلمانوں اوردیگر غیرہندوؤں کومرتدکرنے کی مہم سونے پرسہاگے کاکام دے رہی ہے۔
جس مذہب کی اساس گائے کی تقدیس ہے اورجوبے شماراوہام اورلایعنی رسوم کامجموعہ ہے،اسے کوئی غیرہندوکس طرح قبول کرے۔یہ وہ لاینحل مسئلہ ہے جوآج کل مودی سرکارمیں ہندوستان کے ان تمام باشندوں کیلئے سوہانِ روح بن گیا ہے جوہندودھرم پرایمان نہیں رکھتے،اس صورتحال سے بھارت کے عیسائی ،پارسی،بدھ مت کے ماننے والے، کیمونسٹ حتیٰ کہ دہریے بھی پریشان ہیں۔اس صورتحال کامحرک ہندوؤں کاروحانی گرومدھویوسداشیوگولواکرہے۔ اس نے مودی سرکارکی شہہ پاکراپنانعرہ ہندوراشٹرابڑی تیزی سے بلندکیاہے۔وہ ڈنکے کی چوٹ پراعلان کررہاہے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام غیرہندواپنی جان کی امان چاہتے ہیں توہندودھرم اورہندوبود وباش اختیارکرلیں بصورت دیگران کی زندگی ہلاکت کی زدمیں رہے گی۔مدھویوسراشیومدت سے ہندودھرم کاپرچارکر رہاہے۔وہ تمام مسلمانوں ، عیسائیوں، بدھوؤں، پارسیوں حتیٰ دہریوں کوبھی تاکید کررہا ہے کہ ہندوراشٹرکافلسفہ قبول کرلوکیونکہ ہندوفلسفہ قومیت کی بنیادہے۔
بھارت کے کیمونسٹ ہندوتراشٹراکے فلسفے پرتعجب کااظہارکررہے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ اگرمذہب ہی قومیت کی بنیادمان لیاجائے توپھربھارت اور نیپال دونوں ملک ایک ہی دھرم کوماننے والے ہیں،یہ دونوں آپس میں ضم ہوکرایک قوم کیوں نہیں بن جاتے ۔برمااورسری لنکایکساں نوعیت کاایک ہی دستوراختیار کیوں نہیں کرتے؟ اکثرپڑھے لکھے تعصب سے ماوراء لوگ ہندودھرم کے تضادات پرحیرت کااظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پروفیسرڈی این جھا، پروفیسر آرایس شرما،رومیلاتھاپراورڈی سی کوسمبی نے مستندتاریخی حوالوں سے لکھا ہے کہ ہندوستان کے قدیم برہمن گائے کا گوشت کھایاکرتے تھے جبکہ نیپال کے ہندوتوآج بھی ہرقسم کی خوشی کی تقاریب میں بیل کے گوشت کاپکوان پکاتے ہیں ۔اس صورتحال میں گاؤکشی کے نام پرمسلمانوں کوکیوں قتل کردیاجاتاہے؟
ہندودھرماکاایک اہم اثاثہ ویدہیں لیکن اس کے متن میں یکسانیت نہیں ہے۔گاندھی اپنی روزانہ کی دعائیہ مجلس میں قرآن کریم،انجیل اورگیتاکے اسباق پڑھاکرتے تھے۔ ہرچند ان کایہ عمل مذہبی سے زیادہ سیاسی تھاکیونکہ وہ ہندوستان کے تمام مذاہب کے لوگوں کوایک قوم بناناچاہتے تھے۔جسٹس دیپک دوااورمودی بھی گیتا پڑھتے ہیں ۔احمدآبادکاشاعر احسان جعفری عالمگیرانسانیت پریقین رکھتاتھا،جواہر لال نہروکاپیروکارتھا۔اس نے زندگی بھرپیرا،گوتم بدھ اورگورو نانک جیسے شخصیات کے محاسن پرنضمیں لکھیں لیکن گجرات میں مسلم کش فسادات کے ذمہ دار مودی کے چیلوں نے انہیں بھی نہیں بخشا۔اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اوراس کے گھرکے سارے اثاثہ کو جلاکرخاکسترکردیا۔ اسی طرح احمدآبادہی کی ایک مغنیہ رسولاں بائی کاگھربھی جلادیا حالانکہ وہ ہرنغمے کی دھن سے پہلے رام اورکرشن کے نام کا پاٹھ پڑھا کرتی تھی۔
یہ آج کے بھارت کی وہ سرگرمیاں ہیں جنہوں نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔شدھی یعنی مسلمانوں کوہندوبنانے،مسلمانوں کی بستیاں جلانے اوران کاخون بہانے کی تحریک ہندوستان میں بہت پہلے سے موجودتھی لیکن اب مودی حکومت میں یہ تحریک ایک وبااوربلائے بے اماں کی شکل اختیارکرچکی ہے۔آج خودبھارت میں ہرصاحبِ ضمیرشخص یہ سوال کر رہا ہے کہ کیااب بھارت کاسیکولرآئین اندھااورانسانی حقوق کاکاعالمی منشوراپاہج ہو گیاہے؟کیااب بھارت میں کسی مہذب انسان کواپنے افکارکے مطابق زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں